پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ نکل کیوں نہ سکا ؟ کیا کوئی سازش ہورہی ہے؟ تحریر:نوید شیخ

0
29

آج ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کوگرے لسٹ میں ہی رکھا ہے ۔ اور کہا ہے کہ پاکستان بہت اچھا کام کررہا ہے ۔ مزید کرتا رہے ۔ اس حوالے سے حماد اظہر نے ایک پریس کانفرنس بھی کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سے 26 نکات پر عمل کرچکا ہے ۔

۔ دوسری جانب پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ایف اے ٹی ایف کے صدر Dr. Marcus Pleyer نے کہا کہ اب بھی پاکستان کو دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں اور قانونی چارہ جوئی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بھارت کی حوالے سے دونمبری تو آگے چل کر بتاتا ہوں ۔ پراس حوالے سے حماد اظہر نے کہا ہے کہ جلد اس پر بھی عمل درآمد کر لیا جائے گا ۔

۔ پر اس حوالے سے کچھ چیزوں اور معاملات کو دیکھنا بہت ضروری ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو جب بھی ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہونے والا ہوتا ہے تو کچھ اہم واقعات اور چیزیں رونما ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جاتا ہے ۔ ۔ سب جانتے ہیں کہ انڈیا کی سازشوں کے نتیجے میں حافظ سعید کو اقوام متحدہ اور امریکہ دونوں نے عالمی شدت پسندوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جبکہ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جن کا نام ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں متعدد بار لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہر قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ جبکہ پاکستان نے حافظ سعید کو 2019 میں گرفتار کیا جبکہ اس سے پہلے انھیں ان کے گھر میں نظر بند اور واچ لسٹ پر بھی ڈالا ہوا ہے۔

۔ توعین اجلاس سے پہلے لاہور میں ایک دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے اور یہ خاص حافظ سعید کے گھر کے پاس ہوتا ہے ۔ یہ بڑا معنی خیز واقعہ تھا ۔ اس کے پیچھے کون ہے اس کا سراغ تو یقینی طور پر ایجنسیاں لگا رہی ہوں گے ۔ عنقریب اس میں ملوث کردار کیفر کردار تک بھی پہنچ ہی جائیں گے ۔ پر اس واقعہ سے واضح ہوگیا ہے کہ کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف میں پھنسا رہے ۔ کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل نہ ہوسکے ۔ کوئی ہے جو مسلسل پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی طور پر سازشیں جاری رکھے ہوئے ۔ اس ہی بارے چند روز قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بغیر کسی لگی لپٹی نام لے کر کہا تھا کہ انڈیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اور انڈیا کو اس فورم کے سیاسی استعمال کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے جسے سیاسی معاملات کو نمٹانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ تو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا تھا اس سے واضح ہو گیا تھا کہ معاملات پیچیدہ نظر آرہے ہیں۔ اور پہلے سے معلوم تھا کہ اس بار کوئی ریلیف نہیں ملنا ۔

۔ معاشی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں انڈیا کو قانونی طور پر نہیں روکا جا سکتا۔ ساتھ ہی اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف جاتا ہوا ہی نظر آ رہاتھا۔ کیونکہ لاہور میں ہونے والے دھماکے کو ایک سائیڈ پر بھی رکھ دیں تو دوسری جانب افغانستان والا معاملہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔ ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے پاکستان بڑھتا ہوا پریشر بھی آپ کے سامنے ہے ۔ تو افغان صورتحال کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کے فورم کو امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جانا آپ رد نہیں کر سکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں کئی حکومتی نمائندے جیسے کہ معید یوسف، شاہ محمود قریشی اور یہاں تک کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے خود ایسے بیانات دیے گئے ہیں کہ اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کا الزام پاکستان پر عائد نہ کیا جائے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ انھیں کہیں نہ کہیں سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ ایسا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان کے خلاف اس طرح کا بیانیہ بنایا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے دیگر فورمز کو پاکستان کے خلاف استعمال کیاجانا مقصود ہے ۔

۔ دوسری جانب جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی فورمز تکنیکی ہوتے ہیں۔ اور انھیں ویسے ہی رہنے دینا چاہیے۔ کیونکہ ایسا نہ ہونا ایف اے ٹی ایف کی اپنی ساکھ کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ورنہ ایسے فورمز پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے جو کہ ہو رہا ہے کیونکہ سیاست استعمال ہو رہی ہے۔ مگر طاقت کا اپنا اصول ہوتا ہے ۔ اس چیز کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ جس کو استعمال کرکے بڑے ممالک چھوٹوں کو سرنگوں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

۔ اس حوالے سے پاکستان کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا اور اپنا house in order کرنا بھی ضروری ہے ۔ سازشوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنی بے وقوفیوں پر بھی نظر رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ایف اے ٹی ایف کے لیے ایک نمائندہ یا ترجمان ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر غور کیا جائے تو ایک ہی وقت کئی حکومتی وزرا اس حساس موضوع پر اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک فردوس عاشق اعوان بھی اس پر اپنی ماہرانہ رائے دیتی رہتی ہیں ۔ اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ کئی ترجمان اور وزراء اپنے اپنے نمبر ٹانگنے کی چکروں میں ایف اے ٹی ایف پر سیاسی بیانات کا جواب دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کو نیچا دیکھانے کے لیے بلاوجہ کے گڑھے مردے اکھاڑے جاتے ہیں ۔ جس سے ہمارا کیس عالمی برادری کے سامنے کمزور ہو جاتا ہے اور جو مخالفین ہیں ان کو فائدہ پہنچتا ہے۔

۔ کیونکہ انڈین میڈیا میں خبریں اور تجزیے دیکھ کر اور پڑھ لیں آپکو واضح تصویر پتہ چل جائے گی کہ انڈیا کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے۔ اس وقت بھی کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے تو وہاں پرخوب خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کیا جا رہے ہیں ۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ادارے اور قیادت بھارت کی اس کوشش کو ناکام بنا چکے ہیں کہ پاکستان بلیک لسٹ میں رہے لیکن اب بھارت چاہتا ہے کہ مزید سوالات اور اعتراضات ہوں۔ اور پاکستان پھر سے پیچھے کے طرف جائے اور گرے سے نکل کر کسی طرح بلیک لسٹ میں شامل ہو ۔ یوں ہم ایف اے ٹی ایف کے گھن چکر میں پھنسے رہیں ۔

۔ کیونکہ آپ گذشتہ تین برسوں سے انڈیا کے ذرائع ابلاغ اور اعلیٰ حکام کے بیانات دیکھ لیں ۔ ساتھ ہی انڈین سفارتکار ایشیا پیسیفک گروپ اور ایف اے ٹی ایف دونوں جگہ پاکستان کے خلاف لابینگ کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان ایشیا پیسیفک گروپ کا تو رکن ہے لیکن وہ 40 رکنی ایف اے ٹی ایف کا رکن نہیں جہاں حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ انڈیا اس کا ایک رکن ہے۔ جس کا وہ اس صورتحال میں فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ۔ دوسرا سازشی تھیوریوں پر بھی کم دھیان دینا چاہیئے جیسے ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انڈیا کے علاوہ فرانس بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ تاہم بعد میں پاکستانی وزارت خزانہ نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ انٹرنیشنل ۔۔۔ کوآپریشن ریویو گروپ ۔۔۔کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے فرانس پاکستان کا ایک فعال پارٹنر ہے جو تکنیکی معاونت اور ہدایات فراہم کرتا رہتا ہے۔ اسی کے پس منظر میں وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ افواہوں پر مبنی یا سسنی خیز خبریں شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن سے ہمارے بین الاقوامی تعاون اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔ دیکھا جائے تو ایف اے ٹی ایف کی اس وقت رہ جانے والی سفارشات پر پاکستان نے بھرپور کام کیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو اعتراضات آتے رہے ہیں ۔ ان کا بھی پاکستان جواب دیتا رہا ہے اور آگے بھی دیتا رہے گا۔ اس لیے پاکستان کا یہ خیال تھا کہ پاکستان سے مزید کام کرنے یا ’ڈو مور‘ کی تلوار ہٹا دینی چاہیے۔ بالکل جائز خواہش تھی ۔

۔ مگر دنیا میں معاملات ایسے نہیں چلتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی شفارشات پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بڑی شدید لابنگ اور بہترین سفارت کاری کی ضرورت بھی ہے۔ اور اس حوالے سے ایک فوکل پرسن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ ۔ کیونکہ جب ایف اے ٹی ایف کے سربراہ
Dr. Marcus Pleyer سے سوال پوچھا گیا کہ کیا باقی ماندہ ایک آئٹم پورا کرنے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا یا منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایکشن پلان پر بھی عمل در آمد گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ضروری ہو گا۔ تو انہوں نے کہا کہ ایک آئٹم جو کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سزاؤں سے متعلق ہے اس کے مکمل ہونے کے بعد ایک ٹیم کو پاکستان بھیجا جائے گا جو زمینی حقائق کا جائزہ لے گی۔ ۔ دوسری جانب اس موقع پر اردو نیوز کے نامہ نگار وسیم عباسی نے بھارت میں یورینیم کے لیک اور بھارت کے جائزے پر سوال کیا جس پر ایف اے ٹی ایف کے سربراہ کا کہنا تھا۔ میں یورینیم سے متعلق میڈیا رپورٹس سے آگاہ ہوں مگر جب تک ہم ان کا جائزہ نہ لے لیں تب تک اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ تو اس سے آپ اس فورم کی baisness
کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

۔ اس وقت دنیا کے اٹھارہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت دنیا کے دو ممالک ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ ۔ گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔ تو ہم کو vigilant رہنے کی بھی ضرورت ہے اور عقل وفہم کا استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے ۔ ۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے اس بارے میں جہاں انڈیا کی تمام تر توجہ کا مرکز آنے والے دنوں میں ہونے والی ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ ہے۔ وہیں امریکہ بھی اس تمام تر صورتحال کو بغور دیکھ رہا ہے۔ اور افغانستان کا غصہ پاکستان پر نکالنے کی راہ تلاش کر رہا ہے ۔

Leave a reply