پاکستان نے نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے لیے مدعو کر لیا
اسلام آباد: پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اہم اجلاس کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اسلام آباد آنے کی باضابطہ دعوت دی ہے۔ یہ اجلاس رواں سال 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہوگا، اور اس میں تنظیم کے تمام رکن ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک اہم علاقائی اتحاد ہے، جس میں چین، روس، بھارت، پاکستان، اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ اس تنظیم کے اجلاس میں خطے کے اہم مسائل، معاشی تعاون، سکیورٹی، اور دیگر اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان اس مرتبہ SCO اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے اور اس نے تنظیم کے تمام رکن ممالک کے سربراہان کو باضابطہ دعوت نامے ارسال کر دیے ہیں۔پاکستان کی جانب سے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ یہ دعوت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، لیکن SCO جیسے فورمز پر مشترکہ مفادات کے تحت دونوں ممالک کی شرکت سے بعض اوقات تنازعات میں نرمی کا امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، ابھی تک بھارتی حکومت نے پاکستان کی اس دعوت پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بجائے کسی دیگر اعلیٰ سطحی بھارتی وزیر کو کانفرنس میں بھیجے جانے کا امکان زیر غور ہے۔ اگرچہ مودی کے دورہ پاکستان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، لیکن ان کی عدم شرکت کی صورت میں ایک سینئر بھارتی وزیر اس اجلاس میں بھارت کی نمائندگی کر سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آخری بار 2015 میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ تھا، لیکن سشما سوراج کی شرکت نے کچھ حد تک دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دروازے کھولے تھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے جس سے علاقائی اور عالمی سطح پر ملک کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ، بھارت سمیت دیگر رکن ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔پاکستان کی جانب سے اس دعوت کو ایک مثبت اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے اہم ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ بھارتی حکومت اس دعوت پر کیا ردعمل دیتی ہے اور آیا نریندر مودی اس موقع پر پاکستان کا دورہ کریں گے یا نہیں۔