لاہور: ہیپا ٹائٹس پاکستان میں غلبہ پانے لگی ، تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے شکار مریضوں میں دوسرے اور ہیپاٹائٹس بی میں آٹھویں نمبر پر آ گیا، ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں ہر سو میں سے 9 افراد ہیپاٹائٹس سی اور 2 افراد ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔
پنجاب ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر یاد اللہ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ میں ہیپاٹائٹس سی سے ایک کروڑ اور ہیپاٹائٹس بی سے 28 لاکھ افراد متاثر ہیں۔ وہاڑی، حافظ آباد، پاک پتین اور بہاولنگر میں سی جبکہ جنوبی پنجاب میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریض موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 سال میں صرف 7 لاکھ 17 ہزار 700 افراد کو چیک کیا گیا جبکہ ایک لاکھ 88 ہزار 537 مریضوں کا علاج جاری ہے، اسکریننگ کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
پنجاب ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر یاد اللہ کے مطابق ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو اسپتالوں میں 116 جبکہ بڑے اسپتالوں میں 17 ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے کلینک اپنا کام کر رہے ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں مرض کو روکنا ہے تو لوگوں کو اپنی اسکریننگ لازمی کرانا ہو گی۔
دوسری طرف ہیپا ٹائٹس سے متاثر ہونے والے مریضوں کے بارے میں یہ بڑی پریشان کن رپورٹس آ رہی ہیں . لاہور کے کسی بھی بڑے سرکاری ٹیچنگ اسپتال میں ہیپاٹائٹس اے اور ای کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ میؤ اسپتال میں روزانہ ہیپاٹائٹس اے اور ای کے 80 مریض لائے جا رہے ہیں۔
محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق ٹاؤن شپ کے قریب جناح اسپتال میں آئی جی ایم ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں. اس کے علاوہ سنت نگر، کرشن نگر کے قریب میؤ اسپتال میں ہیپاٹائٹس اے اور ای کے ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں۔ گلبرگ اور اچھرہ کے قریب سروسز اسپتال میں بھی ہیپاٹائٹس اے اور ای کے ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔
بالآخر ڈینگی بخار کے توڑ کیلئے ویکیسن تیارکرلی گئی ، کہاں تیار ہوئی ؟ جانیئے
ڈاکٹر یاد اللہ کے مطابق ذرائع کے مطابق محکمہ صحت پنجاب تاحال ہیپاٹائٹس اے اور ای کے ٹیسٹوں کے لیے مشینری نہیں خرید سکا ہے جبکہ متعدد کیسز رپورٹ ہونے کے باوجود ریکارڈ مرتب نہیں کیا جا رہا۔ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد نجی لیبارٹریز سے اپنے ٹیسٹ کرانے پر مجبور ہیں۔