بچپن سے ہم میں سے اکثر کچھ جملے سنتے آرہے ہیں اور سن سن کے ہم میں سے اکثریت کو اس سے شدید چڑ ہوچکی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے پاکستان کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ آپ نے بھی یقینی طور پہ ایسے جملے لاتعداد بار سنیں ہونگے۔ اگر ان جملوں کی گہرائی میں جایا جائے اور اعدادوشمار، منطق سے اندازہ لگایا جائے کہ 74 سال گزرنے کے باوجود پاکستان اتنے برے حالات میں کیوں ہے۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے غربت اور پسماندگی، ہمارے ملک میں 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے اس کا مطلب ہے کہ ساڑھے 6 کروڑ لوگ دن میں 300 روپے سے کم کماتے ہیں اب سوچیں اگر ایک شخص روازنہ کے 300 روپے کماتا ہے تو اس کی تنخواہ 9000 روپے بنتی ہے اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ 9000 میں گزارہ ہوسکتا یے یا نہیں۔ پاکستان میں اوسطا ایک گھر میں پانچ سے چھ افراد رہتے ہیں اور ان لوگوں کا کفیل بھی عام طور پہ ایک ہی شخص ہوتا ہے جو گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ اب آپ اندازہ کریں جو لوگ دیہاڑی کا 300 روپے کماتے ہیں وہ کس طریقے سے اپنا گزارہ کرتے ہوں گے کس طرح سے وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں گے ان کی خوراک کا بندوبست کریں گے ان کی پرورش کریں گے۔ پچھلے 74 سالوں میں کسی ایک حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کا پروگرام ترتیب نہیں دیا۔ بینظیر انکم سپورٹ اور احساس جیسے پروگرامز نے ہماری قوم کو مزید سست اور بھیک مانگنے پہ مجبور کردیا۔ ایک چینی محاورے کا ترجمہ ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ہے تو اس کو مچھلی نہ دیں بلکہ اس کو مچھلی پکڑنا سکھا دیں لہذا ہماری حکومت کے لئے لوگوں کو ہر ماہ امداد دینے کی بجائے ان کو پیسے دینے کے بجائے ان کے اندر ہنر مہارت پیدا کریں ان کو ووکیشنل ٹریننگ دیں تاکہ وہ اپنا کوئی چھوٹا سا کام یا بزنس کرسکیں۔ کوئی مکینک کی دوکان کھول سکے کوئی پلمبر الیکٹریشن کا کام کرسکیں تاکہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست خود کر سکیں۔
ایک اور گھمبیر مسئلہ جس پہ لوگ بات نہیں کرتے وہ ہے فوڈ سیکورٹی کا ہے۔ پاکستان میں 5سال سے کم عمر 38 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں، سندھ میں یہ شرح 50 فیصد تک ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے بچہ اپنی عمر کے حساب سے جسمانی اور ذہنی طور پہ نشوونما رک جاتی ہے اس وجہ سے آئندہ اپنی زندگی میں محنت کرنے کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کو پہچان نہیں پاتا۔ غربت، ناخواندگی، سماجی عدم مساوات، حفظان صحت کی حالت اسکی چند بڑی وجوہات ہیں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے اگر حکومت نے اس پہ توجہ نہ دی تو اگلے پانچ سے دس سالوں میں لوگ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہوں گے اور مرنا شروع ہوجائیں گے. ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حساب سے پاکستان کا دنیا میں 154واں رینک ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بنیادی طور پہ کسی بھی ملک کا صحت کا نظام، تعلیم کا نظام، زندگی گزارنے کے معیار کو دیکھتا ہے۔ پاکستان کے لئے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس رینکنگ میں 154ویں نمبر پہ ہونا ایک بہت ہی شرمناک بات ہے کیونکہ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے آگے ہیں، بھوٹان 129ویں، بنگلہ دیش 133ویں، بھارت 131ویں، سری لنکا 72ویں اور مالدیپ 95ویں نمبر پہ ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ملک میں انسان کے زندہ رہنے کے لئے بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں، نہ تعلیم کا نظام ہے نہ صحت کا نظام ہے نہ کھانے کا نظام ہے نہ ہی کوئی زندگی گزارنے کا معیار ہے جو امیر ہے وہ امیر تر ہے اور جو غریب ہے وہ غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کے بدترین ہیلتھ نظام کی بات کی جائے تو ڈاکٹر مریض کا تناسب 1 اور 1300 کا ہے مطلب یہ ہے کہ 1300 مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ ہسپتالوں میں 1608 مریضوں کے لئے صرف ایک بیڈ موجود ہے۔ حکومت پاکستان جی ڈی پی کا صرف 1.1فیصد ہیلتھ پہ خرچ کرتی ہے۔ پاکستان دنیا کے صرف ان تین ممالک میں شامل ہے جن میں ابھی بھی پولیو کا مرض موجود ہے باقی دو نائجیریا اور افغانستان ہیں۔
پاکستانی قوم ٹیکس سے بھاگتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا ٹیکس ریونیو صرف 9.6فیصد ہے آئی ایم ایف کے مطابق ترقی پذیر ممالک کا ٹیکس ریونیو کم سے کم 15فیصد ہونا چاہیے۔ اتنا کم ٹیکس جمع ہونے کی وجہ سے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ کوئی ترقیاتی کام کرسکے اور جو ٹیکس جمع ہوتا یے وہ اربوں ڈالرز میں لئے گئے قرضوں کی اقساط دینے میں نکل جاتا ہے۔ جبکہ اگر عوام کی بات سنیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران، سیاستدان کرپٹ اور چور ہیں۔ اور ہم خون پسینے، محنت و مشقت سے کمایا گیا پیسہ حکومت کو کیوں دیں جبکہ کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ 2021 میں بھی پاکستان کی خواندگی کی شرح 60فیصد ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ 100 میں سے صرف 60 ایسے ہیں جو پڑھ لکھ سکتے ہیں جبکہ خواتین کی شرح صرف 46فیصد ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑی وجہ ہے پاکستان کے ترقی میں پیچھے رہ جانے کی اور اسی وجہ سے ہم تیسری دنیا کے ممالک میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ہماری خواتین کو پڑھایا نہیں جاتا جسکی وجہ سےوہ معیشت میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتیں اور ہمارا اتنی بڑی تعداد میں انسانی ریسورس ضائع چلا جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ جس پہ شرمندگی اور افسوس ہوتا ہے وہ ہے ہم اپنی نااہلی اور تنگ نظری کی وجہ سے ڈیمز نہیں بنا سکے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد عجیب وغریب ملک ہے جس میں لوگ سیلاب اور خشک سالی دونوں سے مرتے ہیں۔ ڈیم پانی کو محفوظ کرتا یے جس سے کوئی بھی ملک اپنی زرعی ضروریات کو پورا کرتا ہے، اس کے ساتھ ڈیم کے پانی سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور بجلی کی بھی شدید کمی ہے لہذا ہمارے لئے ڈیمز بنانا نہایت ضروری ہے. ڈیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بھارت نے 74 سال میں 3500 سے زیادہ چھوٹے اور بڑے ڈیمز بنائے ہیں جبکہ پاکستان نے اتنے ہی سالوں میں صرف 150 ڈیمز بنائے ہیں ان میں اکثر چھوٹے ڈیم ہیں اور وہ بھی 50-60 سال پہلے تعمیر ہوئے تھے۔
اگر مسائل کی وجوہات کی بات کی جائے تو سب سے پہلے قیادت کا بحران ہے دوسری وجہ اداروں میں کرپشن، بے ایمانی اور نااہلی ہے تیسری وجہ میرٹ کا نہ ہونا اور اس کے بعد ہمارے ملک میں جمہوریت کا کمزور ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ انصاف کا نہ ہونا، تعلیم پہ توجہ نہ دینا اور اسکے ساتھ ذہن سازی، اخلاقیات سازی کا فقدان اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونا بھی بڑی وجوہات ہیں۔
یہ اتنے گہرے اور گھمبیر مسائل ہیں کہ ان کو حل کرنے کے لئے بھرپور توجہ اور وسائل کی ضرورت ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں سے تو شروعات کرنی ہیں تاکہ پاکستان کا شمار بھی انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہوسکے۔ انشاء اللہ
tweets @KharnalZ