پوری دنیا اس وقت سات بڑے براعظموں میں تقسیم ہے۔ ہر براعظم بلکہ ھر ریجن اور ملک اپنی اپنی ضروریات کے مطابق اپنے نظام کو چلا رھا ھے۔ ھر ملک کا اک الگ طور طریقہ اور الگ قسم کی ثقافت ہے۔ ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر ملک کا سیاسی اور انتظامی نظام بھی الگ الگ قسم کا ہے۔ اگر آپ تاریخ میں نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا قانون تھا۔ جس کے ھاتھ میں طاقت ھوتی تھی وہ اسکو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا تھا۔ تب یہ دنیا اتنے ملکوں نہیں بلکہ بڑی بڑی امپائرز میں تقسیم تھی مثلاً رومن امپائر، پرشین امپائر اور اوٹمان امپائر وغیرہ وغیرہ۔ ان امپائرز میں بادشاہ جو کہتا تھا وہی ٹھیک ھوتا تھا۔ مجال ہے کہ کوئی اس کے سامنے بولنے کی جراءت بھی کرتا چاھے بادشاہ پرلے درجے کا ان پڑھ اور ناسمجھ ھوتا۔ اس زمانے میں چاپلوسی بھی بھت اعلیٰ درجے کی ھوتی تھی۔ خیر یہ تمام خوبیاں تو آج بھی ھمارے نظام میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سیاسی اور انتظامی نظام بدلنے لگا۔ لوگ بادشاہت کے خلاف بولنے لگے۔ لوگوں نے غلامی کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ جمھوریت کا نعرہ گونجنے لگا۔ پوری دنیا میں لوگوں نے آزادی اور جمہوریت کی جدوجھد کے لیے اپنی لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس طرح جمھوری نظام نے بادشاہی نظام کی جگہ لے لی۔

جمھوری نظام کا مطلب کہ تمام شھری قانونی اور آئینی لحاظ سے برابر ہیں۔ کسی کو کسی دوسرے پر ذات، رنگ، نسل اور مزھب کے لحاظ سے کوئی برتری حاصل نھیں۔ اس نظام میں بادشاہت کے نظام کے بر خلاف ھر شھری کو ائینی، قانونی اور سیاسی نظام میں شرکت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لھذا جمھوریت میں انتظامی اور سیاسی نظام میں عام عوام نے بھی کھل کر حصہ لینا شروع کر دیا جسکی بدولت اک نیا انتظامی سسٹم معرضِ وجود میں آیا جسکو ھم عام طور پر لوکل گورنمنٹ سسٹم کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ چلنے والا جمھوری نظام ہے اور ہر جمھوری ملک میں اک لوکل گورنمنٹ سسٹم پایا جاتا ہے جو کہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی طاقت کو عام عوام تک پہنچایا گیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے بنیادی کاموں میں تعلیم، صحت، پارکس، لوکل فنکشنز، سینیٹیشن، صاف پانی اور گلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ہر ملک کا لوکل گورنمنٹ سسٹم دوسرے ملک سے مختلف ھوتا ھے کیونکہ انکی ضروریات اور ریسورسز اک جیسے نہیں ہوتے۔ باقی تمام اچھے اچھے کام کرنے میں اچھے نمبرز لینے والے ممالک لوکل گورنمنٹ سسٹم میں بھی پہلے نمبروں پر براجمان ہیں۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں پہلا نمبر سوئٹزرلینڈ کا ھے۔ دوسرا نیوزی لینڈ، تیسرا ڈنمارک اور چوتھا سویڈن کا ھے۔ بلکل دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم موجود ہے جو کہ مختلف ادوار کے داؤ پیچ کھاتا ہوا اور کچھوے کی چال چلتا چلتا ھمارے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ براجمان ہے۔ اگر آپ پاکستان کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی تاریخ دیکھیں تو کوئی خاطر خواہ سکوں نھیں ملتا کیونکہ کسی بھی گورنمنٹ نے اسکو اس کے اختیارات سے ھمکنار ہی نہیں کیا سوائے جنرل پرویز مشرف کے ڈیولیوشن پلان کے جس کے تحت پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کو خاطر خواہ اختیارات اور فنڈز مہیا کیے گئے۔ پاکستان میں سب سے پہلے ایوب خان نے چار درجوں پر مشتمل لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کروایا جس میں ڈویثرنل، ڈسٹرکٹ، تحصیل/تلکہ، اور یونین کونسل شامل تھی۔ مشرف کی طرح یہ لوکل باڈی سسٹم کی کارکردگی بھی جمھوری حکومتوں کی نسبت ٹھیک تھی۔ ان دونوں آمروں نے نئے لوکل گورنمنٹ سسٹمز متعارف کروائے تا کہ سیاسی پاور کو گراس روٹ لیول تک تقسیم کیا جائے۔ اس علاؤہ جمھوری حکومتوں نے انہیں کو توڑ مروڑ کر اپنی چلتی گاڑی کو دھکا دیا۔ خیر مختصراً یہ کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم برائے نام ھی ھے کسی بھی حکومت نے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نھیں کی۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ھر گلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، گندا پانی سڑکوں پر نکل رھا ھے، صاف پانی دور دور تک نظر نھیں آتا، دیھاتی علاقوں میں صحت اور تعلیم کا نظام درھم برہم ھے۔ لوکل فنکشنز نہ کروانے کی وجہ سے ھماری آنے والی نسلیں اپنے کلچر سے دور ھوتی جا رھی ھیں وغیرہ وغیرہ۔۔

موجودہ دور میں بھی لوکل گورنمنٹ سسٹم کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ جب عمران خان کی حکومت آئی تو جناب وزیراعظم صاحب نے پاکستان کے لوکل گورنمنٹ سسٹم پر بھرپور محنت کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب بس چٹکی میں پاکستان کے حالات ٹھیک ھو جانے ھیں۔ عمران خان آمروں کی طرح پاکستان میں اک نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کروانے جا رھا تھا یھاں تک کہ نئے سسٹم کی ڈرافٹنگ بھی مکمل ہو گئی تھی لیکن پھر پتہ نہیں کیا بنا سب کچھ اک دم سے جیسے منظرنامہ سے غائب ہو گیا۔ پاکستان کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے فلاپ ھونے کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں لیکن چند اک بہت نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے تو یھاں لوکل باڈیز کے الیکشن وقت پر نھیں ھوتے۔ ہر حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ھوے آخری اک ڈیڑھ سال میں الیکشن منعقد کرواتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ برادری سسٹم ھے کہ لوگ اپنی برادری کو ھی ووٹ ڈالتے ہیں چاھے وہ بلکل ان پڑھ ھو اور اسکو معاشرے کی خاص طور پر نئی ضروریات کے بارے کؤی علم نہیں ھوتا۔ تیسری وجہ ان لوکل باڈیز کے منتخب نمائندوں کو کوئی ٹریننگ نہیں کروائی جاتی جسکی وجہ سے یہ سسٹم تقریباً ناکارہ ہو جاتاہے۔ آخری اور سب سے اہم وجہ فنڈز کی کمی ہے۔ اگر عمران خان واقع ملک میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو وہ ڈیویلپمنٹ فنڈز کو سیدھا یونین کونسل کے حوالے کرے اور اک نھایت سخت قسم کا اکاؤنٹیبلٹی سسٹم بھی متعارف کروائے تا کہ یہ پیسے بجائے ایم۔پی۔اے یا ایم۔این۔اے کی جیبوں میں جانے کے سیدھا عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ھوں۔ اور اگر ایسا ھو جائے اور 2,3سال جو بچے ہیں ان میں ڈیویلپمنٹ کا فنڈ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت ایمانداری کے ساتھ لگا دیا جائے تو نہ تو ھمارا کوئی تعلیم کا مسلہ رہے، نہ صحت کا، نہ صاف پانی کا، نہ گلیوں نالیوں کا اور نہ ھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا۔ اور اگر خان نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کروانے میں ناکام رہا تو پھر ھمارہ ھمیشہ کی طرح اللہ ہی حافظ۔۔۔۔۔

Shares: