پاکستان کا مسلم ممالک سے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ

0
82
ishaq dar

جدہ: پاکستان نے تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کے ارکان ممالک سے اسرائیل پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ موقف پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے او آئی سی وزرائے خارجہ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا، "اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے مکمل اتحاد کی ضرورت ہے۔ او آئی سی کو جو کچھ ہو سکتا ہے، وہ ضرور کرنا چاہیے۔ اگر اسرائیل جنگ بندی نہیں کرتا تو اس پر پابندیاں لگانی چاہئیں۔”

انہوں نے ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور فلسطین میں اسرائیل کی بربریت کی شدید مذمت کی۔اسحاق ڈار نے کہا، "اسرائیل نے غزہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب صرف مذمت کافی نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کو اس کے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔”پاکستان کے وزیر خارجہ نے مزید تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا، "تمام او آئی سی ارکان تجارتی اور تیل کی پابندیاں لگائیں۔ او آئی سی کو مکمل سیز فائر کی کوشش کرنی چاہیے۔”اسحاق ڈار نے مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "مسلم امہ آج ایک مشکل موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ یاد رکھا جائے گا کہ ہم نے ظالم سے کس طرح نمٹا۔ ہمیں امن چاہیے، جنگ نہیں۔ استحکام چاہیے، تباہی نہیں۔”
انہوں نے سوال اٹھایا، "کیا ہم کسی اور بحران کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم او آئی سی ریجن کو پاور گیم کے لیے شطرنج کی بساط بننے دیں؟ کیا وہ ہمارے لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کریں؟ کبھی نہیں۔”پاکستان کے وزیر خارجہ نے او آئی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین اور ایران کے ساتھ یکجہتی کا پیغام بھیجے اور مقبوضہ وادی میں جنگ بندی کرانے کے لیے اقدامات کرے۔یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان کا یہ موقف اس کی فلسطین کے حق میں مستقل پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ مؤقف مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ او آئی سی کے دیگر ارکان اس تجویز پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔اس اجلاس کے نتائج پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں، کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر مسلم دنیا کے مؤقف کا اندازہ ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجاویز عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا ایک کوشش سمجھی جا رہی ہیں۔

Leave a reply