پاکستان کی 70 سالہ تاریخ سے چند حقائق تحریر : اقصٰی صدیق

0
108

 1947ء کو تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان  ہندوستان سے الگ ہو کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلایا۔تاریخ میں اس قصے کو تاریخ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 تقسیم ہندوستان  سے پہلے موجودہ پاکستان کا خطہ برطانوی تسلط میں تھا۔ اور اُس سے پہلے بھی اس خطے پر مختلف ادوار میں مختلف مقامی بادشاہوں اور کئ غیر ملکی طاقتوں کا راج رہا ہے۔

پرانے وقتوں میں یہ خطہ برصغیر پاک و ہند کی کئی سلطنتوں اور چند بڑی تہذیبوں کا حصہ بنا رہا۔ اور اسی تناظر کے پیش نظر 18 ویں صدی عیسوی میں یہ سرزمین برطانوی ہند میں ڈھل گئی۔
 آل انڈیا مسلم لیگ 1906ءکے قیام سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آغاز ہوا۔ اس جماعت کے قیام کا بنیادی مقصد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور اُن کی نمائندگی کرنا تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ 1906ء سے لے کر 1947ء تک کی قیادت کا بنیادی مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔
دو قومی نظریہ کی بنیاد برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ تھا،
دو قومی نظریہ ہی ہماری آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں سر فہرست رہا۔اور اسی نظریے کو صف اول رکھتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمان بالآخر 1947ء میں اپنے مقصد کو پانے میں سرخرو ہوگئے۔

مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کرنے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کرنے کے ضمن میں آل انڈیا کانگریس، دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
وہ مسلمانوں کو اپنی غلامی کے تسلط میں رکھنے کے قائل تھے۔

مختصر یہ کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے دس سال بعد علی گڑھ مکتب کے سربراہ سرسید احمد خان نے ہندی اردو تنازعہ کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا، اسے دو قومی نظریے کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظریے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ الگ قومیں قراردیا گیا۔
علی گڑھ کے قائدین نے دو قومی نظریے کو حقیقی انجام تک پہنچانے میں بھرپور کوششیں کیں۔

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ایک اور جھگڑے نے طول پکڑا۔
یہ جھگڑا مسلمانوں کی قومی زبان اردو کی ساکھ کے خلاف کھڑا کیا گیا، اس جھگڑے کو اردو ہندی تنازعہ 1867ء کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔جس میں انہوں نے ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔
1857ء کی جنگ آزادی میں بہت سے مسلمانوں نے حصہ لیا اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا ان مطالبات کے نتیجے میں ہی آل انڈیا کانگریس 1885ء قیام میں آئی۔

قائداعظم محمد علی جناح اعظم نے 1906ء آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کی جو کہ اُس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔
محمد علی جناح دو قومی نظریہ کے حامی تھے،
دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی آپ نے برصغیر کے مسلمانوں ایک الگ ریاست کے حصول کیلئے لڑے،
اس کے علاوہ آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان میں ایک الگ سیاسی جماعت کے طور پر منوایا۔

غرضیکہ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔

روشنیوں کے شہر کراچی میں جنم لینے جناح، بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ایام میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شخصیت، اور پاکستان کے لیے غور و فکر کے نظریات کا محمد علی جناح پر بہت زیادہ اثر تھا ،اور اسی اثر کے نتیجے میں پاکستان جیسی آزاد اور خودمختار ریاست کے قائم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور اس اثر و رسوخ کو مورخین نے قابل ستائش اور ناقابل انکار تک لکھا۔

29 دسمبر 1930ء کو فلسفی و شاعر، علامہ محمد اقبال نے جنوب مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ اور خود مختار ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا۔ ایک ایسی ریاست جس میں برصغیر کے مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
1930ء کے آخری دنوں میں مسلم لیگ نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔
چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں اس ریاست کا نام "پاکستان ” تجویز کیا اور مختلف علاقوں کو ملاتے ہوئے پاکستان کو ایک نقشہ کی صورت میں ڈھالا۔
اس کے علاوہ چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنے مشہور کتابچہ Now or) (Never "ابھی یا کبھی نہیں” میں پہلی بار لفظ پاکستان استعمال کیا۔

محمد علی جناح اقبال کی سوچ سےکافی حد تک متاثر تھے۔جس کا اندازہ 23 مارچ 1940ء کو علامہ اقبال کی ایک عوامی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔

1930ء تک برصغیر کے اکثر مسلمان آزادی حاصل ہونے کے بعد ہندوں کے ساتھ ایک متحد مملکت میں رہنے کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ وہ صدیوں پہلے سے ہی رہ رہے تھے۔

1930ء میں خطبہ الہ آباد میں سر علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد ریاست کا مطالبہ کیا۔
اقبال کا یہ خطبہ دو قومی نظریہ کا واضح عکس تھا۔
محمد علی جناح نے اپنی تقاریر میں اقبال کے خواب کی بھرپور حمایت کی۔

چونکہ 1857ء کی جنگ آزادی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے انگریزوں کے خلاف لڑے تھے، لیکن اس کے بعد کچھ ہندوؤں کے نا مناسب رویے اور کچھ انگریزوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں تقسیم ہو گئے۔ اس طرح پہلی مرتبہ برصغیر پاک و ہند میں دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا رہا، اس کے برعکس مسلمان ثابت قدم رہے، اور
جنگ آزادی کے دوران عظمت و بہادری کی کئی داستانیں رقم ہوئیں۔اس جنگ میں ناکامی کے بعد مسلمانوں سے بہت امتیازی سلوک رکھا گیا۔

1857ء کی جنگ آزادی نے برصغیر کے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اپنے لیے الگ ریاست کے عزم کو یقینی بنایا۔
مسلمان ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اور انگریزوں کے تسلط سے نکلنے کے لیے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ان تمام حالات و مصائب میں مسلم رہنما قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، سر سید احمد خان، چوہدری رحمت علی، مولانا فضل الحق، شبلی نعمانی اور دیگر کئی نامور شخصیات مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے میں، ان میں آزادی کا احساس پیدا کرنے میں برصغیر کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔
اور ایک الگ ریاست کے قیام کے لئے ڈٹے رہے،
بالآخر 23 مارچ 1940 ء کے خطبہ آلہ آباد کے سات سال بعد مسلمان ایک الگ ریاست کے حق دار ٹھہرے۔

تقسیم کے بعد ہندوستان برطانوی راج کی سب سے بڑی نوآبادیاتی اکثریت تھی، جبکہ اگست 1947ء میں ملک کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن قائم کر دیا گیا۔

یوں ملک کی تقسیم نے مشکلات و مصائب کا ایک طوفان کھڑا کر دیا، بہت بڑی اکثریت کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، اس ہجرت نے مسلمانوں کی ساکھ کو تباہ کر دیا۔
لاکھوں افراد پناہ کی تلاش میں در بہ در ہوئے۔ لاکھوں محفوظ ٹھکانوں کی جانب سفر کرتے ہوئے راستے میں مارے گئے، جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ سبھی شامل تھے۔مسلمان عورتیں،غیر مسلم مردوں نے اغوا کر لیں۔

موجودہ دور میں تقسیمِ ہند کی تلخ یادیں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں ایک زہر کی طرح گھُلی ہوئی ہیں اور آج 70 برس بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔

تقسیمِ ہند کی غیر منصفانہ تقسیم میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔
یہ تنازعہ آج تک حل نہیں ہو سکا اور موجودہ دور میں پاک و ہند تعلقات میں بڑے مسائل کو ہوا دے رہا ہے۔

گزشتہ 70 سالہ تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزاد مملکت کا حصول مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے صلہ ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے جدوجہد کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔

تحریر میں موجودہ پاکستان کی تاریخ زیر بحث لانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قوم اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ہو اور اس مقصد کو پا لینے کی جستجو میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی نہ گھبراتی ہو تو پھر کامیابی ایسی قوم کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔

یہ وطن ہمارے آباؤ اجداد کی بے شمار قربانیوں کے بعد وجود میں آیا ہے، لاکھوں شہیدوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ خطہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے حاصل کیا۔تا کہ ہم اس میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں۔
اب اس مملکت کی حفاظت کا ذمہ قائد کے جوانوں اور اقبال کے شاہینوں کے سر پر ہے۔
ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اچھی تعلیم و تربیت حاصل کریں، تاکہ وہ آنے والے وقت میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔
آپس میں مل جل کر رہیں اور ایک اچھے انسان اور شہری ہونے کا ثبوت دیں۔بھائی چارے کو فروغ دیں۔
کیوں کہ ہم آپس میں اتحاد و اتفاق کی بنا پر ہی ملک کو ملت اسلامیہ کا روپ دے سکتے ہیں۔
جس کا اشارہ ہمیں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری میں بھی واضح نظر آتا ہے۔ جیسا کہ آپ ہی کا ایک شعر ہے،

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

اگر میں اور آپ ! سب مل کر درختوں کی بریدہ شاخوں کی مانند آپس میں جڑے رہیں، زمین پر پھیلے اشجار سے رب العالمین کی تخلیق کے ہر روپ میں چھپے درد کو سمجھنا شروع کردیں گے تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو ہمیں ہرا سکے۔

@_aqsasiddique

Leave a reply