پاکستان کی کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے
پاکستان کا آج تک ایک جمہوری ملک نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ پالستان کی سیاسی جماعیتں ہیں، ہر جماعت یا تو کسی خاندان کی جماعت ہے یا ایک شخص کی جماعت ہے ۔
پی پی پی آج تک بھٹو خاندان کی غلامی میں مبتلا ہے ، کبھی بھٹو پھر اُسکی بیٹی پھر اسکا شوہر زرداری اور اب زرداری کے بچے بھٹو بن کر اب پی پی پی کے غلاموں کے سردار ہیں، پی پی پی کی لیڈرشپ اور نہ کسی کارکن نے کبھی پارٹی میں جمہوریت کی بات کی اور اس پارٹی میں تو دیکھا ہے کہ پڑھے لکھے بڑے قد کاٹھ والے لوگ ایک نابالغ لڑکے کو لیڈر اور سر کہ کر پکارتے رہے۔
مُسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے شریف خاندان کے علاوہ کوئی اس جماعت میں سربراہ نہیں بن سکتا اور باقی لوگوں کو نوکر اور غلام اور قصیدہ پڑھنے والے بننے کی اجازت ہے ، اگر کبھی کوئی اس پارٹی میں جمہوریت کی بات کر دے اس کا سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے ، شریف خاندان نے سندھ کے بھٹو خاندان کے مقابلہ میں پنجاب کا سلطانی خاندان بن گیا اور پنجابی کارڈ کھیل کر اپنے لیے اسٹلیشمنٹ کی مدد بھی حاصل کی ۔اس جماعت میں سربراہی صرف یا نواز شریف یا شہباز شریف کی یامریم یا حمزہ کی پاس ہو گی باقی جو ان کی چاپلوسی اور خوشامد کرے گا وہ قریب اور عہدے کا حقدار بنے گا
ن لیگ میں جمہوریت کا نام و نشان بھی نہیں لیکن سب سے زیادہ آج کل جمہوریت کا نعرہ یہ جماعت لگاتی ہے بے شرمی اور منافقت سے بھرپور سیاست رہی ہے اس پارٹی کی ۔
پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی جماعت تھی جس سے ایک اُمید لگی تھی کہ وہ ایک جمہوری جماعت میں بنے گی اور اس جماعت نے ایک کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی اور اس کے بعد نہ کوشش کی نہ کوئی اس جماعت کا کوئی ارادہ ہے اب اس طرح تحریک انصاف بس ایک فرد واحد کی جماعت بن کر رہ گئی
پاکستان کی باقی چھوٹی پارٹیوں کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
جب یہ جماعتیں اپنی جماعت میں جمہوریت نہیں لا سکتے نہ بات کر سکتے ہیں لیکن بے شرمی اور ڈھٹائی سے پاکستان میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں کوئی ووٹ کو عزت کی بات کرتا ہے کوئی پارلیمان کی عزت اور سپرمیسی کی بات کرتا ہے
لیکن اپنی جماعت میں جمہوریت کا نام لینا ممنوع ہے ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں آگے بڑھنے کا طریقہ صرف ایک ہی ہے” شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار” ہماری سیاسی جماعیتں ایسے وفاداروں سے بھری پڑی ہیں جو خوشامد اور چاپلوسی اور غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کرتے ہیں۔ ابن الوقت مطلبی، مصنوعی اور ضمیر فروش سیاستدان اس معاملہ میں سب سے آگے نظر آئیں گے۔ پارٹی لیڈر کی خوشنودی کے لیے پاکستان کے ہر ادارے پر تنقید اور کہیں خوشامد کرنی ہو تو اپنی اس وفاداری کے بھرم میں وہ وہ چیزیں بھی بیان کر جاتے ہیں جو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی، سیاستدان ہی کیا اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو بہت سارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اچھلتے کودتے شور مچاتے اور اپنے بے سرے راگ الاپتے دکھائی دیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ لگاتے ہیں کون زیادہ اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے دوسری پارٹی کے لیڈر کے گالیاں اور بُرا بھلا کہتا ہے کیونکہ یہی ایک معیار ہے ان کو اوپر اور عہدہ ملنے کا۔
جتنا جو زیادہ زبان دراز ہو گا اتنا ہی اسکو پارٹی کے اندر پارٹی لیڈر سراہے گا اور وفادار کا خطاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد سب بڑی خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں وہ ہے بلا جھجھک جھوٹ بولنا اور اس بے شرمی اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا کہ سچ بھی شرما جائے ۔
مقولہ ہی “ اتنی سچائی سے جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگے”
یہ جمہوریت،جمہوری نظام، ایوان کا تقدس اور ووٹ کی عزت کے نعرے صرف اپنی چودھراہٹ کو واپس لانے کے لیے ہے اور عوام کو بار بار بیوقوف بنانے کے لیے ۔
@saqibnaveed21

Shares: