پاکستان کی معیشت کااصل مسئلہ

پاکستان کی معیشت کوغیر قانونی طریقوں سے ناقبلِ تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ چند حقائق درج ذیل ہیں۔

ڈیزل کی چوری
کسٹمز انٹیلیجنس کے حالیہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے نتیجے میں نان ڈیوٹی پیڈ ڈیزل کی چوری پکڑی گئی.*پارکو کی نان کسٹم پیڈ زیر زمین لائن سے ایک آئل مل میں سرنگ بنا کر ڈیزل چوری کر کے مارکیٹ میں فروخت کیا جا رہا تھا۔کسٹمز انٹیلی جنس کی خفیہ اطلاعات کی بناء پر مشتبہ صنعتی احاطے کی مانٹرنگ کی جارہی تھی۔ کاروائی کے نتیجے میں پورٹ قاسم کے قریب خوردنی تیل والی آئل مل انتظامیہ ڈیزل کی چوری میں ملوث پائی گئی۔ کاروائی کے دوران حیران کن انکشاف ہوا کہ آئل مل کی انتظامیہ نے خفیہ سرنگ کے ذریعے سفید پائپ لائن نکالی۔ دریافت ہونے والی خفیہ سرنگ کی لمبائی 174 فٹ ہے جہاں سے ڈیزل چوری کیا جا رہا تھا۔موقع واردات سے 65 ہزار لیٹر ڈیزل برآمد ہوا جس کی مالیت تقریبا 20 ملین روپے ہے.مزید تفصیلات کے مطابق پارکو کی سفید پائپ لائن میں دو انچ کے پائپ کو کلیمپ کے ذریعے جوڑا گیا تھا اور ہائی پریشر کے وقت میں دو سے تین گھنٹے کے دورانیہ میں پورا کنٹینر بھر لیا جاتا تھا۔ ملزمان سے تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ اس جگہ پہلے 12 کنٹینر ڈیزل نکال کر بیچا جا چکا ہے۔پارکو کی یہ لائن جہاں سے چوری کی جا رہی تھی وہ تقریبا ایک ہزار کلومیٹر طویل ہے، اور اگر چوری اتنی آسانی سے کی جا رہی تھی تو اس بات میں پھر کوئی شبہ نہیں رہتا کہ متعدد جگہوں پر کلیمپس لگا کر ڈیزل کی چوری کی جا رہی ہے۔

ٹریڈ بیس منی لانڈرنگ
کسٹم انٹیلیجنس سمگلنگ کے روک تھام کے ساتھ ساتھ مختلف غیر قانونی کاموں کی روک تھام پر سرتوڑ محنت کر رہی ہے۔جیسا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف بھی کسٹمز سرگرم عمل ہے۔ پاکستان میں ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ اس طریقہ واردات کی مدد سے بین الاقوامی تجارتی نظام کے ذریعے غیر قانونی فنڈز کو قانونی حیثیت دی جاتی ہے۔ٹریڈ بیس منی لانڈرنگ مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے جیسا کہ درآمد شدہ یا برآمد شدہ سامان کی غلط قیمت مقدار اور معیار بتایا جاتا ہے، سامان اور سروسز کی اوور یا انڈر انوائسنگ کی جاتی ہے،اگر سامان کی اوور انوائسنگ کر کے امپورٹ کریں گے تو ہمارے ذخائر سے ڈالر زیادہ خرچ ہوں گے یا اگر انڈر انوائسنگ کر کے سامان ایکسپورٹ کیا جائے گا تو ہمارے ذخائر میں کم ڈالرز کا اضافہ ہوگا۔ گزشتہ چھ ماہ میں درآمد اور برآمد شدہ اشیاء کی اوور اور انڈر انوائسنگ کی مد میں 32 ملین ڈالر پکڑے گئے ہیں، ایک ایسا ہی قابل ذکر کیس یہ ہے کہ کاغذات میں ایک الیکٹرانک کنٹینر کو کیٹ لیٹر سینڈ ڈیکلیئر کیا گیا بتاتے چلیں کہ کیٹ لٹر سینڈ پر ڈیوٹی دو لاکھ بنتی ہے اور الیکٹرانکس پر ڈیوٹی پانچ کروڑ بنتی ہے۔ اب اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح بڑے پیمانے پر غبن کر کے ملکی معیشت کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے۔پاکستان کی امپورٹ پالیسی ایکٹ کے مطابق انڈیا سے ہرطرح کے درآمدات پر پابندی ہے۔ پابندی ہونے کے باوجود انڈیا سے درآمدات جاری ہیں، کئی اشیاء جیسا کہ سلفیورک کھاد اور سوتی دھاگہ وغیرہ انڈیا سے براستہ دبئی پاکستان میں درآمد ہو رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے کہ یہ سامان تھائی لینڈ سے درآمد کیا گیا ہے لیکن کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تمام اشیا دبئی سے درآمد کی گئی ہیں جبکہ دبئی میں ان اشیا کی پروڈکشن نہیں ہوتی، جو کہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ دبئی صرف روٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔کراچی میں مختلف مارکیٹوں میں چھاپوں کے دوران سمگل شدہ کپڑا بھی ملا ہے۔ جس کے بعد 17 اقسام کے کپڑے کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی ہے، یہ پابندی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے اقدامات کا حصہ ہے۔

اصل حقیقت کیا ہے
یہ تمام وہ پہلو ہیں جو پاکستان کی معیشت اور مالی استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔معصوم پاکستانی عوام کو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے اور جھوٹے مسائل اور ایشوز میں پھنسا کر بھٹکایا گیا ہے۔ تاکہ جو اصل غور طلب معاملات ہیں ان کی جانب عوام کا دھیان نہ جائے۔ہر معاملے میں فوج پر انگلی تو اٹھائی جاتی ہے لیکن حقیقت سے کبھی پردہ نہیں اٹھایا جاتا۔ کبھی یہ حقیقت منظر عام پر نہیں آئی کہ پاکستان کے مختلف اداروں کے شہداء کے گھرانوں کو حکومتی خزانے سے مدد فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاک فوج اپنے شہداء کے گھرانوں کو خود ریوینیو جمع کر کے مدد فراہم کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے سالانہ جمع کراتی ہے۔وچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام تفصیلات اور کاروائیاں اب منظر عام پر کیوں آ رہی ہیں؟ اب ہی کیوں ان کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے؟س کا بہت آسان جواب یہ ہے کہ موجودہ حکومت ایک غیر سیاسی حکومت ہے جب روایتی سیاسی جماعتیں حکومت میں آتی ہیں تب ان تمام سرگرمیوں کی خود سرپرستی کرتی ہیں اور عوام کو دوسرے بے معنی معاملات میں الجھا کر رکھتی ہیں تا کہ عوام کا پیسہ کھا سکیں۔ چونکہ موجودہ حکومت غیر سیاسی ہے نہ صرف ان تمام کاروائیوں کی روک تھام چاہتی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی روک تھام میں مکمل سپورٹ کر رہی ہے۔ بہرحال اب بہت اشد ضرورت ہے کہ ہم اصل حقائق کو پہچانیں اور ان تمام کاروائیوں کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔

Shares: