پاکستان کے خلاف الزامات ، سازشیں اور پراپیگنڈہ ۔۔۔ حقیقت کیا ؟ تحریر: نوید شیخ

گزشتہ دنوں پاکستان میں دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کا تعلق تو اس خطے کی بدلتی صورتحال سے ہے مگر یہ ہوئے پاکستان میں ہیں ۔

۔ سب سے پہلے ایک داسو میں حملہ ہوتا ہے۔ جس میں متعدد چینی ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ جس کے بعد یقینی بات ہے کہ چین کی جانب سے بیانات بھی آنے تھے ۔ بہت ہی سخت بیانات آئے ۔ پریشر بھی آیا ۔ یہاں تک کہ چین کی ایک خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم بھی پاکستان میں آئی ۔ اس حوالے سے حکومت کے ہاتھ پاؤں بھی پھولے دیکھائی دیے ۔ یہاں تک کہ شاہ محمود قریشی خصوصی طور پر چین گئے اور چینی قیادت کو اعتماد میں لیا ۔

۔ پھر چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ اگر پاکستان داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی ماہرین پر حملہ کرنے والے مجرموں کو نہیں پکڑ سکتا تو چین اپنی سپیشل فورسز کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے۔

۔ پھر یہ خبریں بھی آئیں کہ داسو ڈیم بنانے والی چینی کمپنی نے پاکستانی ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کام بند کر دیا گیا ہے ۔ جس کے بعد یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ دشمن پاکستان اور چین کے درمیان دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ پھر واپڈا کے اعلی حکام سمیت حکومت پاکستان نے قائل کیا تو یہ نوٹس واپس لے لیا گیا ۔ اب داسو واقعے کے بعد سول انتظامیہ، واپڈا اور چینی کمپنی نے باہمی مشاورت سے تعمیراتی کام چند دنوں کے لیے معطل کردیا ہے ۔ کام بند کرنے کا مقصد حفاظتی اقدامات کو ازسرنو منظم کرنا بتایا گیا ہے ۔

۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھاگتے دوڑتے بھی دیکھائی دیے ۔ متعدد پریس کانفرنسیں بھی کیں ۔ یہ بھی اعادہ کیا کہ جلد ملزموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا ۔

۔ اس حوالے سے گزشتہ روز کی بریفننگ میں بتایا کہ پاکستانی آرمی اور دیگر ایجنسیز کے 15اہلکار تحقیقات کیلئے ہیلی کاپٹر پر داسو پہنچے ۔ یہ بھی کہا کہ سی پیک اور ڈیم کے پراجیکٹس پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا، چین کی حکومت جانتی ہے کہ ہم اپنی قوت سے زیادہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ۔ مزید یہ بتایا کہ ہم نے چین سے کہا ہے کہ وہ دفتر خارجہ سے مل کر کام کریں ۔۔ اب اس حوالے سے ابھی تک تو کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی ہے مگر یہ واضح ہے کہ پاکستان پر چین کی جانب سے اس حوالے پریشر بہت ہے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے سی پیک کو ذرا بریکس لگ گئی ہیں ۔ اس حوالے سے بھی چین پاکستان کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ پھر اگر بین الاقوامی امور کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے بڑے دور رس اثرات ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان کے چین کے ساتھ معاملات تو شاید دوبارہ ٹریک پر آجائیں ۔ مگر یہ واضح ہے کہ اس میں ملوث کرداروں اور ممالک کو آنے والوں دنوں میں اہم پیغام اور موثر جواب ضرور دیا جائے گا ۔ اب یہ پاکستان کی جانب سے ہوتا ہے یا چین کی جانب سے مگر یہ ہوگا ضرور ۔ اگر سیاسی طور پر دیکھاجائے تو اندرونی طور پر بھی حکومت پر پریشر بڑھ رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ داسو حادثے نے ہمیں شرمندہ کردیا ہے، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو اس واقعے پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔
چینی ورکرز کے حوالے سے پاکستان میں پہلے بھی کئی واقعات ہوتے رہے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں ایسا دیکھائی دے رہا ہے کہ اب پاکستان پر امریکہ کے بعد چین کی جانب سے
do moreکا پریشر بڑھے گا ۔ کیونکہ یہ دیکھنا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے جیسے افغانستان میں خانہ جنگی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے اور جو پاکستان کے دشمن ہیں ، چین کے دشمن ہیں ۔ سی پیک کے دشمن ہیں وہ اس موقع کو استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کر یں گے ۔

۔ دوسرا ایک اور بہت اہم واقعہ ہوا ہے جس پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے لیا ہے ۔ اور حکم دیا ہے کہ 48گھنٹوں میں ملزمان کو پکڑا جائے ۔ کیونکہ دن دیہاڑے کہیں اور نہیں پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد سے افغان سفیر کی بیٹی اغواء ہو جاتی ہے پھر حیران کن طور زخمی حالت میں ملزمان اس کو پھینک کر چلے جاتے ہیں ۔ ۔ اس کی تفصیل میں آپکو بتاوں تو کہ اسلام آباد کے ایف سیون مرکز کی جناح سپر مارکیٹ سے افغانستان کے سفیر نجیب اللہ خیل کی 26 سالہ بیٹی سلسلہ علی خیل کو دن ڈیڑھ بجے اغواءکیا گیا اور شام کو 7 بجے زخمی حالت میں بلیو ایریا تہذیب بیکری کے پاس پھینک دیا گیا۔ ۔ یعنی ساڑھے پانچ گھنٹے وہ اغواءکاروں کے پاس رہیں اور اس دوران ان پر تشدد کیا گیا اور تشدد کر کے انہیں بلیو ایریا میں پھینک دیا گیا۔۔ اس کے بعد افغان سفیر کی بیٹی کو زخمی حالت میں پمز ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے ۔ اس معاملے کی کوہسار پولیس سمیت دیگر ادارے بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔

۔ پہلے پہل یہ خبر پاکستان کے کسی چینل میں نہیں چلائی گئی اس کی وجہ خطے کے کشیدہ حالات ہیں اور سب کو معلوم تھا کہ اس خبر کے بڑے گمبھیر نتائج ہو سکتے تھے۔ پھر جب افغان حکومت اور انٹرنیشنل میڈیا کی جانب سے اس اسٹوری کی بھرپور کوریج ہوئی اور بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع ہوا تو مجبوراً ہمارے وزیروں ایکشن لینا پڑا اور میڈیا کو بھی یہ اسٹوری چلانا پڑی ۔

۔ اس معاملے پربھی اب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا موقف آگیا ہے ۔ اس حوالے سے بڑے اہم سوالات بھی انھوں نے اٹھائے ہیں کہ افغان سفیر کی بیٹی نے خود ٹیکسی بک کی تھی۔ اس سے پہلے کسی سفیر کے اہلخانہ کے یوں پرائیویٹ ٹیکسی ہائر کرنے کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ پہلے کہا گیا کہ ٹیکسی موبائل فون سے بک کرائی گئی لیکن پھر کہا گیا کہ فون گھر پر تھا، ایک موقف یہ بھی آیا کہ مبینہ اغوا کار موبائل فون اپنے ساتھ لے گیا۔ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کے واقعے میں دو ٹیکسیوں کا ذکر ہے۔ ایک ٹیکسی وہ ہے جس میں تشدد کیا گیا جب کہ دوسری وہ ٹیکسی ہے جس نے افغان سفیر کی بیٹی کی مدد کی۔ اس ٹیکسی ڈرائیور کو 500 روپے انعام بھی دیا گیا۔

۔ شیخ رشید نے یہ بھی کہا ہے کہ کیمرہ اور ویڈیوز کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی گھر سے پیدل نکلیں ، مارکیٹ میں آئیں وہاں سے ٹیکسی لے کر شاپنگ کیلئے کھڈا مارکیٹ میں اتریں ، کھڈا مارکیٹ سے ایک اور ٹیکسی لی ۔ ہماری فوٹیج کے مطابق یہ راولپنڈی گئیں ،راولپنڈی کے شاپنگ مال اتریں ، ان کے اترنے کی فوٹیج موجود ہیں ، اس کے بعد یہ تیسری ٹیکسی پر دامن کوہ اتریں ،یہ راولپنڈی سے دامن کوہ کیسے پہنچیں اس پر کام ہو رہا ہے ، یہ ایف سکس سے گھر جا سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایف نائن جانے کو اہمیت دی ۔ ۔ شیخ رشید نے یہ بھی بتایا کہ دوسرے ٹیکسی ڈرائیور کو ٹریس کرلیا گیا ہے۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، مزید کارروائی افغان سفیر کی بیٹی کے تحریری بیان پر کی جائے گی۔ ان کے مطابق فی الحال اس واقعے کا کوئی دوسرا پہلو نظر نہیں آتا۔

۔ اب یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ جب یہ لڑکی بازیاب ہوئی تو اس کے دوپٹے کے ساتھ ایک ٹیشو پیپر اور پچاس روپے کا نوٹ بندھا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ ۔۔۔ اگلی باری تمہاری ہے ۔۔۔

۔ اب یہ ایک کھلی دھمکی ہے اگر آنے والے دنوں میں اس حوالے سے افغان سفیر کو کچھ ہوتا ہے یا کسی اور کو کچھ ہوتا ہے ۔ تو پاکستان کے لیے شدید مسائل ہوسکتے ہیں ۔ ہم پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں ۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کے خلاف بین الاقوامی طور پر خوب پراپیگنڈا ہو رہا ہے ۔ کہ ہمارے ہسپتالوں میں زخمی طالبان کا علاج ہو رہا ہے۔ افغان حکومت کبھی ہماری ایئر فورس پر الزام لگاتی ہے تو کبھی ہم پر کہ پاکستان سے افغانستان میں جنگجو جارہے ہیں ۔

۔ بھارت اس خبر کو لے کر ہمیشہ کی طرح ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈا کررہا ہے ۔ اس واقعے پر بھی بھارت نے پرانی فوٹیج لگا کر پروپیگنڈا کیا اور عالمی میڈیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ ایک fakeتصویر کو افغان سفیر کی بیٹی بنا کر پیش کیاگیا ۔ اور اس معاملے کو دیکھتے ہوئے افغان سفیر خود میدان میں آئے اور انہوں نے تصحیح کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی درست تصویر شیئر کی اور سا تھ پیغام بھی جاری کیا۔ کہ کسی اور کی تصویر سوشل میڈیا پر غلط پوسٹ کی گئی تھی ، حالانکہ میں اسے بالکل بھی نہیں جانتا ہوں۔

۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے اور ہماری اہمیت بڑ ھ چکی ہے ۔ جو مجھے سمجھ آتا ہے کہ ان واقعات کو سرانجام دینے والوں کا مقاصد یہ ہی دیکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا ہے ۔
اس حوالے سے جو کرنے کا والے کام ہیں کہ سب سے پہلے تو تمام غیرملکیوں پر نظر رکھی جائے ۔ اپنی اندرونی سیکورٹی کو مزید مضبوط بنایا جائے ۔ جتنے بھی ہائی پروفال لوگ ہیں ان کی سیکورٹی میں اضافہ کیا جائے ۔ کیونکہ جو دشمن ہے اس مقاصد صاف دیکھائی دے رہاہے کہ وہ اس بدلتی صورتحال میں پاکستان کو بدنام کرناچاہتا ہے ۔ اور یقینی طور پر وہ ایسی چیزوں کو ٹارگٹ کرے گا جس سے بڑی خبر بنے اور انٹرنیشل میڈیا اس کو اٹھائے ۔ حکومت اور وزیروں کو بھی چاہیے کہ damage controlکرنے سے بہتر ہے کہ damage ہونے ہی نہ دیا جائے ۔ ۔ اب اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان کی وجہ سے صرف پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے تو یہ بھی غلط ہے اور صرف تصویر کا ایک رخ ہے ۔ ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے علاوہ روس اور چین نے بھی افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر آپس میں صلاح مشورے شروع کر دیئے ہیں۔

۔ تاجکستان کے بعد ایران نے بھی افغان جنگ کے ممکنہ اثرات کو اپنے اپنے ملکوں میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سرحدوں پر فوجیں جمع کر دی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی سرحد بندی کر چکا ہے ۔ باڑ لگا چکا ہے ۔ روس کا ماننا ہے اور وہ کہہ بھی رہا ہے کہ افغانستان کی وجہ سے پڑوسی ممالک میں عدم استحکام پھیل جانے کا حقیقی خطرہ موجود ہے ۔ اس لیے اب چین، روس، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ہاں دوبارہ خدشات جنم لینے لگے ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ اور مغربی اتحادی اپنی ناکامی یا پھر خانہ جنگی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے جارہے ہیں۔ ادھر افغان حکومت امریکہ کی بے وفائی کے تذکرے کی ہمت یا اپنی ناکامیوں کے اعتراف کی بجائے سب الزام پاکستان کو دے رہی ہے۔ پاکستان، روس، ایران اور چین اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر طالبان کو ناراض کرنے کا رسک لیں یا پھر ان کی ضد کے آگے سرنڈر کر دیں۔ کہ وہ افغانستان کو پھر سے امارات اسلامی افغانستان بنادیں ۔ ایک اور چیلنج اس خطے کے تمام ممالک کے لیے یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کی طرح امریکہ بکھر گیا ہے اور نہ اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اس کی فوج افغانستان سے نکل رہی ہے لیکن امریکہ نہیں نکل رہا۔ افغانستان کو چلانے کے لئے پیسہ اب بھی امریکہ ہی دے گا۔ سوویت یونین کی طرح وہ لاتعلق نہیں ہوگا بلکہ کچھ فاصلے پر خلیج میں اس کے بیس سے زائد فوجی اڈے موجود ہیں۔

۔ یعنی امریکہ فوج نکال کر بھی خطے کی مینجمنٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اب اس کا بنیادی ہدف چین ہے۔ وہ افغانستان سے فوج کو نکال کر اسے چین اور روس کے لئے درد سر بنانا چاہے گا۔

۔ ساری پیش رفت ایسے انداز میں ہو رہی ہے کہ جس سے شک جنم لے رہا ہے کہ خود امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان افغانستان پر قابض ہو جائیں یا پھر یہاں پر بدترین خانہ جنگی ہو جائے۔ جنوب کی بجائے چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے متصل صوبوں میں کئی اضلاع پر بغیر مزاحمت کے طالبان کے کنٹرول نے اس تھیوری کو مزید تقویت بخشی ہے ۔ ۔ یوں جیسے جیسے امریکی فوجی انخلا اپنے اختتام تک پہنچ رہا ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوششوں کا فوکس اب علاقائی ملکوں کی طرف شفت ہو رہا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں جنگ کے شعلے تیز ہوئے تو ان کی حدت سب سے زیادہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں ہی محسوس ہو گی۔

۔ تو میری نظر میں صرف پاکستان ہی نہیں ۔ ایران ۔ روس ، چین اور سینڑل ایشیاء بھی خطرات سے دوچار ہے ۔ کیونکہ belt and road intiative اور سی پیک ان تمام ممالک سے لنک ہونا ہے ۔ جو امریکہ اور مغرب کو کھٹکھتا ہے ۔

Comments are closed.