کسی بھی معاشرے کی ترقی اور امن وامان کے لئے سزاء و جزا کا ہونا انتہائی لازمی ہے. کوئی بھی معاشرہ کسی بھی طریقے سے چل سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں چل سکتا. جب عدل ہی نہیں ہوگا تو سزا اور جزا کا تصور ہی ختم ہو جائے گا. جب کسی معاشرے سے سزا اور جزا کا تصور ختم ہو جائے تو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے. پاکستان میں سزا اور جزا ہی نہیں بلکہ کمزور مظلوم کو مجرم ثابت کیا جاتا ہے اور طاقتور ظالم کو مظلوم ثابت کیا جاتا ہے.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا. تم سے پہلی قومیں اس لئے برباد ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی امیر اور طاقتور جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی غریب جرم کرتا تو اس کو سزاء دی جاتی. تم لوگ عدل سے کام لینا. عدل جو کہ اسلام کا اہم ترین اور بنیادی ترین اصول ہے اس کے مطابق عمل کر کے یورپ اور دوسرے غیر اسلامی معاشرے ترقی کر گئے ہیں اور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو کر بھی اس اصول کو نہ اپنا سکے.

بدقسمتی سے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے اس بنیادی اور اہم ترین اصول سے بالکل خالی ہے. ہمارے ہاں بھی قدیم قوموں والا نظام عدل رائج ہے. بہت ساری مثالیں بلکہ حقائق موجود ہیں کہ طاقتور آزاد گھوم رہے ہیں. بااثر اور سیاسی یا حکومتی اثرورسوخ والے مجرم اعتراف جرم کرنے کے باوجود معصوموں کی طرح آزاد اور بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں. 258 لوگوں کو زندہ جلانے والے نے اعتراف جرم کیا مگر اس کو سزا نہیں دی گئی. تقریباً 120 سے زیادہ لوگوں کے قتل کا اعتراف کرنے والا بھی ابھی تک انجام کو نہیں پہنچا.

پاکستان میں طاقتور کے لئے اور کمزور کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون ہیں. پچھلے دنوں مظفرگڑھ کے ڈپٹی کمشنر امجد شعیب نے اپنی گاڑی سے ایک غریب اور کمزور موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا. کچلنے کے بعد اس کو مرنے کے لئے ٹرپتے ہوئے چھوڑ کر فرار ہو گئے. عینی شاہدین کے مطابق گاڑی خود ڈپٹی کمشنر صاحب چلا رہے تھے اور سراسر غلطی بھی ڈپٹی کمشنر صاحب کی تھی. پولیس نے فوراً ڈپٹی صاحب کو دوسری گاڑی میں بٹھا کر موقع سے فرار کروا دیا. مرنے والا کمزور اور غریب تھا، کمزوری اور غربت کی موت مر گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب معمول کے مطابق مزے میں ہیں.

عدل و انصاف اور سزاء و جزا کے لئے پولیس اور عدلیہ دو اہم ترین ادارے ہیں. ان دونوں اداروں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے. اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے لئے کوئی قانون نہیں، ان کی مرضی جب چاہیں اور جیسا چاہیں کر گزریں. مالدار اور جاگیر دار اپنے پیسے کے بل بوتے پر قانون اور پولیس کو خرید لیتے ہیں. قانون کی بالادستی کے لئے باقی عام غریب اور کمزور پاکستانی رہ جاتا ہے. جس کی آدھی عمر یا بعض دفعہ ساری زندگی عدالتوں اور تھانوں کے چکر لگانے میں گزر جاتی ہے. آخر کب کمزور اور طاقتور دونوں ایک ہی قانون کے تحت سزا جزا کے مستحق ٹھہریں گے. آخر کب غریب اور جاگیر دار کے لئے ایک قانون ہوگا؟

@mian_ihsaan

Shares: