پاکستان میں انقلاب چاہیے یا انقلابی سوچ  ; تحریر فرازرؤف

0
58

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی حکمران اس ملک پر مسلط ہوا چاہے وہ سویلین حکمران تھا یا پھر عسکری ہر کسی نے الیکشن سے پہلے یا ملک پر قابض ہونے سے پہلے اس ملک میں انقلاب، تبدیلی کے نعرے لگائے لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ بھی اس اسٹیٹس کو کا حصہ بن گئے یا سسٹم نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ بھی اس راہ پر چلیں جو ان سے پہلے حکمرانی کرکے جا چکے تھے۔

وہ کیا محرکات ہیں جو ہر آنے والے حکمران پر حاوی ہو جاتے ہیں الیکشن سے پہلے انقلابی سوچ رکھنے والا لیڈر کیسے اقتدار اعلی ملنے کے بعد اسی آلودہ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کیا یہ گلا سڑا نظام اب اس ملک کے لیے ناسور بن چکا ہے جو بھی آتا ہے وہ اسی بوسیدہ نظام کا یا تو حصہ بن جاتا ہے یا پھر اسی میں سے راستہ تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکلے گا۔

تاریخ اٹھا کر دیکھیں فرانس ہو یا ایران دونوں میں انقلاب کے محرکات یکساں تھے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔ نا انصافی اتنی بڑھتی گئی کے لوگوں نے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور ہتھیار اٹھا لئے۔ کم و بیش  انقلاب کا مفہوم و وجوہات ایک جیسی ہی نظر آتی ہیں۔

وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہمارے بیوروکریٹس بھی اسی نظام کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ  کھانچے لگانا جانتے ہیں اتنے سالوں سے سسٹم میں رہ کر تمام لوپ ہولز کا پتہ ہے۔ یہ ہی ایک مین وجہ ہے کہ وہ اس نظام کو یا اپنی سوچ کو بدلنا نہیں چاہتے۔ حقیقت میں ہماری بیوروکریسی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہمارے سیاست دان لالچی ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے جال میں پھنسانا کوئی مشکل کام نہیں اور یوں سیاست دانوں کی لالچ اور حرص کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیورو کریسی اُنہیں آرام سے استعمال کرلیتی ہے اور جب تمام مقاصد حاصل کرلیئے جاتے ہیں تو اُنہیں چلتا کردیا جاتا ہے اور بیوروکریسی وہیں کی وہیں موجود رہتی ہے۔

میرے خیال میں سیاست دان اگر صحیح معنوں میں مخلص ہو جائیں اور سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کریں تو انہیں کوئی بیوروکریٹ استعمال نہیں کر سکے گا اور یہ بات نوٹ کر لیں کہ جس دن بیوروکریسی درست ہوگئی تو پاکستان دنیا کے نقشے پر مثالی ملک بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو وسائل سے مالا مال بنایا ہے۔ قطر، سنگا پور، ہانگ کانگ، ملائشیا اور یو اے ای کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں کی بیوروکریسی کی بدولت ملک دنیا کے نقشے پر اُبھرتے نظر آئے۔

اس ملک میں انقلاب اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک اس ملک میں لوگ انقلابی سوچ کے حامل نہیں ہوجاتے اس ملک میں انقلاب اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک لوگ خود اپنی قسمت بدلنے کی جدوجہد نہیں کرتے، ایک فرد واحد کا انقلابی سوچ رکھنے سے کچھ نہیں ہو گا جب تک پوری کابینہ انقلابی نہیں ہو گی۔

آج کی بڑی مثال موجودہ حکومت ہے، عمران خان نیازی الیکشن جیت کر اس نیت سے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کے ہر شعبے اور ادارے میں  رفارمز لائے جائیں گے، شروع کے دو سال بیوروکریسی نے خان صاحب کو سسٹم میں ایسا الجھایا کہ اب تین سال ختم ہونے کو ہیں ابھی تک خاطر ہوا کام نہیں ہو سکتا۔

حکومت شروع دن سے جب سے اقتدار میں آئی، تب سے بیوروکریسی میں بھی انقلابی تبدیلیوں کی خواہاں ہے لیکن کیا کریں، معاملات سلجھنے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔

 بیوروکریسی کیوں وزیراعظم عمران خان کو ناپسند کرتی ہے؟ کیونکہ عمران خان نے تہیہ کیا ہے کہ اب ملک ویسے نہیں چل سکتا جیسے پہلے چل رہا تھا، لیکن کیا ملک میں ریفارمز بیروکرسی کے بغیر کیے جا سکتے ہیں? جواب یقینا منفی میں ہو گا۔

موجودہ حکومت کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات بھی اپنے حلقے کی سیاست کو اسی پرانی نظر سے دیکھتے ہیں جسے ہم تھانہ کچہری کی سیاست کہتے ہیں۔

لہذا ایک طویل غوروفکر کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس ملک میں انقلاب کی نہیں بلکہ انقلابی سوچ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنے ذاتی مفاد کو ایک طرف رکھ کر ملکی مفاد میں مل کر کام کریں۔ اس میں بیوروکریسی، حکمران اور خصوصا عوام کا ذہنی طور پر شامل ہونا ضروری ہے۔

Author: Faraz Rauf

Twitter ID: @farazrajpootpti 

Leave a reply