تعلیم انفرادی و اجتماعی طور پر سب کے لیے نہایت اہم ہے تعلیم معاشرے کو بہترین شہری پڑھے لکھے نوجوان اور معاشرے کو باشعور کرتی ہے تعلیم ہر قوم کی بنیاد ہوتی ہے تعلیم ایک اچھا انسان بننے میں مدد دیتی ہے انفرادی طور پر کسی بھی ملک کا تعلیم یافتہ ہونا ملکی استحکام اور ترقی کے لئے بہت ضروری ہے جس سے وہ ملک ترقی کرتا ہمارے دن اسلام نے مسلمانوں پر تعلیم فرض کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی اہمیت اس قدر بیان کی ہے کہ "علم عبادت سے افضل ہے”
تحریک پاکستان سے قبل برصغیر میں سرسید احمد خان نے تعلیم کے لئے جو اقدامات کیے آج ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ایک سکول کو کالج اور یونیورسٹی تک لے گئے اگر اس وقت مسلمان ایسی اعلی کاوشیں کر سکتے ہیں تو آج ہم اس آزاد ملک میں کیوں نہیں کر سکتے

ہماری آزادی کو 73 گزر چکے ہیں مگر آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے کیا اچھا کیا اور کیا برا کیا کبھی ہم پکے مسلمان بننے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مغربی ممالک کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں یہ یہ بات صرف رہن سہن کی حد تک نہیں ہمارا تعلیمی نظام بھی اس سے نہیں بچ سکا ہرسال بدلتے تعلیمی نصاب نے ہمارے تعلیمی نظام کو مکمل تباہ کر دیا ہے ہم تو آج تک یہ طے نہیں کر پائے کہ ہمارے تعلیمی نظام کی زبان اردو ہونی چاہیے یا انگریزی ملک کا حال یہ ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہونے کے باوجود ہم لوگ انگریزی کو پسند کرتے ہیں تعلیمی نظام میں بھی انگریزی کو پسند کیا جاتا ہے آخر کون سی احساس کمتری ہے جو ہمیں ہماری قومی زبان اردو سے دور کر رہی ہے دنیا میں جتنی بھی قوموں نے ترقی کی ہے وہ اپنی قومی زبان میں کی ہے

مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب امریکا اور یورپ کا ہی مرہون منت رہا ہے ہمارے مصنفین نے جو بھی اردو میں کتابیں لکھی ہیں ان کو ترقی یافتہ ممالک میں لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ کہہ سکتے ہیں جو کتابیں ہمارے مصنفین نے انگریزی میں لکھی ہیں ان کو ترقی یافتہ ممالک میں لکھی گئی کتابوں کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں جب سے نجی اسکولوں اور اور کالجوں کا رواج پڑا ہے تب سے کتابیں بھی انہی مصنفین کی پڑھائی جاتی ہیں جو یورپین یا امریکن سکولوں کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں
قوموں کی ترقی کا دارومدار کتابیں پڑھ لینے یا ڈگریاں حاصل کرنے میں نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ گریجویٹ اسمبلی بن جانے سے ہمارا سیاسی کلچر تبدیل ہو جائے گا اکثر ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ آگے آئیں گے تو یہ ملک ترقی کرے گا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان ہر محکمے میں پڑھے لکھے افراد موجود ہیں جن کی تعلیمی قابلیت ایم فل یا پی ایچ ڈی ہے مگر پھر بھی ملک ترقی نہیں کر رہا ہے تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور ان اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں جن کا ذکر ہمیں کتابوں میں ملتا ہے

مگر "پاکستان میں حقیقت اس چیز کے بالکل برعکس ہے یہاں طلبہ کو تعلیم نہیں ڈگریاں دی جاتی ہیں”
پاکستان میں ہزاروں گورنمنٹ کالج اور سکول قائم ہیں جن میں نہ جانے کتنے زمین پر اور کتنے کاغذوں پر موجود ہیں لیکن ہزاروں کالجوں اور سکولوں کے باوجود لوگ بنیادی تعلیم سے محروم ہیں تعلیم مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہے لوگوں میں اس کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے "بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو کاروبار سمجھا جاتا ہے اور لاکھوں نہیں کروڑوں کمائے جاتے ہیں ”
دنیا کے وہ 26ممالک جو پاکستان سے بھی زیادہ غریب ہیں مگر تعلیم پر پاکستان سے زیادہ خرچ کرتے ہیں مگر ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجٹ میں سے صرف 2 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ہمیں سکولوں اور کالجوں کی خستہ حالت کی صورت میں نظر آتا ہے جو چند لوگ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ سرکاری اداروں کے بجائے نجی اداروں کو فوقیت دیتے ہیں

تعلیم کے لیے مختص کیا گیا 2 فیصد بجٹ بھی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے ” پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے بھی زیادہ بچے غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے ہم اس وجہ سے بھی تعلیم میں دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہمارے حکمران تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اگر پاکستان میں نظام تعلیم بہتر کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں تعلیمی بجٹ بڑھانا ہوگا اور اپنا تعلیمی نصاب درست کرنا ہوگا اور تعلیم کے لیے ان اساتذہ کا انتخاب کرنا ہوگا جو نئی نسل کی ذہنی صلاحیت سے واقف ہوں اور ان کے تعلیمی تقاضوں کو پورا کر سکیں اور اس کا بہترین ذریعہ ہے وہ طلباء ہیں جو حال ہی میں تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے ہو (یعنی نوجوان اساتذہ )وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوئی ہے تو لازما” ایجوکیشن کے طور طریقے اور تقاضے بھی تبدیل ہوئے ہیں انہیں وہ اساتذہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں جو چند سال قبل ہی تعلیم سے فارغ ہوئے ہوں حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لئے تمام عملی اقدامات بروئے کار لائے اور پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم ہو۔

Shares: