مزید دیکھیں

مقبول

مریم نواز کا گردےعطیہ کرنیوالے تمام افراد کو خراج تحسین

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نےگردوں کے عالمی دن...

سوچ عورت ایوارڈ .تحریر:عنبریں حسیب عنبر

عالمی یومِ خواتین پر ہمیں ہیومن رائٹس کونسل آف...

وزیراعظم شہباز شریف کا کوئٹہ کا دورہ، سیکیورٹی صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس

کوئٹہ(باغی ٹی وی) وزیراعظم میاں شہباز شریف ایک روزہ...

پاکستان اور ٹریفک حادثات تحریر: احسان الحق

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سڑکیں اہم ترین اور بنیادی کردار ادا کرتی ہیں. دراصل پختہ سڑکیں یا لمبی چوڑی شاہراہیں اہم کردار ادا نہیں کرتیں، ان کے اوپر زرائع آمد ورفت اور اشیاء کی نقل وحمل کے لئے چلنے والی گاڑیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں. ان گاڑیوں سے زیادہ ان گاڑیوں کو چلانے والے لوگ زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں.
ہم تیزی سے عمدہ اور پختہ سڑکوں کے جال بچھا رہے ہیں. خطے میں موٹر وے، ہائی وے سمیت سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے ہم سب سے آگے ہیں. اسی طرح ان سڑکوں پر حادثات اور قانون شکنی میں بھی شاید سب سے آگے ہیں. سڑکیں مناسب ہیں مطلب ان حادثات کے پیچھے سڑکیں وجہ نہیں. مسافروں اور اشیاء کی ترسیل کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی اتنی بری نہیں جتنے برے ان گاڑیوں کو چلانے والے لوگ ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ موٹر وے یا ٹریفک پولیس کے اہلکار برے ہیں جو معمولی سی رقم یا سفارش یا غفلت کی وجہ سے بڑے حادثے کی وجہ بن جاتے ہیں.
پاکستان خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں روڈ یا ٹریفک حادثات میں اگر پہلے نمبر پر نہیں تو چند پہلے آنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں سالانہ سب سے زیادہ ٹریفک حادثات میں اموات ہوتی ہیں. ان اموات کے پیچھے غیر تربیت یافتہ ڈرائیور یا نشے کے عادی ڈرائیور ہیں. موٹر وے یا ہائی وے پر تعینات پولیس اہلکاروں کی کرپشن بھی ایک وجہ ہے جو اوور اسپیڈنگ، اوور لوڈنگ، لائسنس کی عدم موجودگی، یا ڈرائیور کا نشے میں ہونا اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سزاء اور جرمانہ نہیں کرتے. ہماری دوہری بدقسمتی کہ حادثے کی صورت میں ہنگامی حالت کو ڈیل کرنے اور زخمیوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے کے لئے وسائل نہیں اور ہسپتال بہت دور ہوتے ہیں. بعض اوقات زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے لئے گھنٹوں انتظار اور سینکڑوں کلومیٹرز کا سفر کرنا پڑتا ہے جس سے زخمیوں کی حالت اور بگڑ جاتی ہے.
اب چند دن پہلے ایک بس سیالکوٹ سے راجن پور کے لئے نکلی. بس کی 46 نشستوں پر 46 مسافروں کو بٹھانے کی گنجائش تھی مگر بس انتظامیہ نے 75 لوگوں کو بس کے اندر بٹھایا، 16 لوگوں کو چھت پر بٹھایا. 46 سواریوں کی جگہ تقریباً 91 لوگوں کو سوار کیا گیا. بس کی باڈی میں، بس کے اندر اور بس کی چھت پر ان مسافروں کا سامان بھی لادا گیا تھا. بس سیالکوٹ سے ڈیرہ غازی خان پہنچ گئی مگر کسی پولیس یا ادارے والے نے بس کو روکا اور نہ ہی جرمانہ کیا. بس ڈرائیور کی غلطی یا ٹینکر ڈرائیور کی غلطی، یا اوور لوڈنگ کی وجہ سے یا پولیس کی غلفت یا کرپشن کی وجہ سے 3 درجن لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے.
ٹریفک حادثات روزانہ کی بنیاد پاکستان کے ہر علاقے میں ہوتے ہیں. ان حادثات میں اکثر جان لیوا ہوتے ہیں مطلب روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو رہے ہیں. تحقیق کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ڈرائیور کی غفلت سے حادثہ ہوا ہے. ڈرائیور غیر لائسنس یافتہ ہوتا ہے، یا شراب میں دھت ہوتا ہے یا موبائل کا استعمال کر رہا ہوتا ہے یا ڈرائیور کی نیند پوری نہیں ہوتی. کبھی کبھی اوور سپیڈ یا ساتھ والی بس سے ریس لگاتے ہوئے بھی حادثات ہو چکے ہیں.
ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کرنا ہو گا، ان فٹ گاڑیوں اور ان فٹ ڈرائیوروں کو سخت سزائیں اور جرمانے کرنے ہونگے. گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ڈرائیوروں کا معائنہ بھی ہونا چاہئے. نشے کے عادی افراد کو کسی بھی صورت میں کسی بھی گاڑی پر نہیں بیٹھنے دینا چاہئے. ٹرانسپورٹ شعبے میں اکثریت ڈرائیور باقاعدگی سے شراب نوشی کرتے ہیں. آپکو یاد ہوگا کہ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر شاہیںن ائیرلائن کا طیارہ خوفناک حادثے میں بال بال بچا اور بعد میں پتہ چلا کہ پائلٹ شراب کے نشے میں دھت تھا. پاکستان میں جب تک کوئی ڈرائیور کسی حادثے میں کسی کی جان نہ لے چکا ہو اس وقت تک اسکو ڈرائیور ہی تسلیم نہیں کیا جاتا. سڑک حادثات کو کم سے کم کرنے کے لئے ٹرانسپورٹرز، حکومت اور اداروں کو سنجیدگی اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا تاکہ سالانہ سینکڑوں لوگوں کو ہلاک ہونے سے بچایا جا سکے.
@mian_ihsaan