پاکستان! سستا یا مہنگا؟ تحریر: احسان الحق

0
31

کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان سستا ملک ہے مگر اعدادوشمار کچھ اور بتاتے ہیں. جناب وزیراعظم کے دعوے اور اعدادوشمار میں کافی تضاد ہے. موجودہ حکومت پر عوام اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے سب سے زیادہ مہنگائی کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے. حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے. بلکہ آئے روز حکومتی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے. گھی فی کلو کی قیمت 155 سے 310 سے 320 روپے ہو چکی ہے.

پاکستان میں ہمیشہ اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں. ابھی یہ تحریر لکھتے وقت نیوز چینل کے ٹکر پر میری نظر پڑی کہ گھریلو استعمال کے گیس سیلنڈر کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے. شاید کبھی کسی چیز کی قیمت گری ہو. خصوصاً اشیائے خوردونوش کے نرخ ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں. ایک عام پاکستانی کے لئے اشیائے خوردونوش کی خریداری ایک چیلنج سے کم نہیں. ملک میں اگر پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو تمام بکنے والی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں جن کا دور دور تک پیٹرول سے کوئی تعلق نہیں ہوتا. اگر ڈالر کی قیمت بڑھ جائے تو بھی تمام اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں. پیٹرول اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سبزیوں، دودھ، ادویات اور تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا کیا تعلق؟

عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے. غربت 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے. اس سلسلے میں دو ڈالرز یومیہ سے کم قوت خرید کو پیمانہ بنایا گیا ہے. پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں. پاکستان میں غربت کا تناسب 39.3 فیصد ہے. متوسط طبقے سے نچلے طبقے کی یومیہ آمدنی 3.2 ڈالر ہے. متوسط طبقے کی آمدنی 5.5 ڈالرز یومیہ ہے. یہ تو ہو گئی عالمی بینک کے اعدادوشمار کی بات، اب حکومت کے اپنے اعدادوشمار بھی دیکھ لیں. حکومت کے اپنے سرکاری ادارے کی جانب سے کیے گئے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ سروے کے مطابق انتہائی کسمپرسی کے شکار گھروں کی تعداد 7.24 فیصد سے بڑھ کر 11.94 فیصد ہو گئی ہے. غذائی قلت کا شکار آبادی کی شرح 16 فیصد تک پہنچ چکی ہے. معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48 فیصد سے کم ہو کر12.7 فیصد تک آ گئی ہے.

مہنگائی کے علاوہ ٹیکسوں کے ذریعے بھی عوام پر بوجھ اور دباؤ بڑھایا جا رہا ہے. سرکاری آمدنی کا بڑا ذریعہ بل واسطہ محصولات ہیں جس کے اثرات امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر بہت زیادہ پڑ رہے ہیں. رواں مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں 62.5 فیصد ٹیکس وصولی کسٹمز اور فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکس سے حاصل کی جائے گی، جبکہ بقیہ 37.5 فیصد براہ راست محصولات سے وصول کیے جائیں گے. بجٹ دستاویزات کے مطابق پچھلے مالی سال میں بل واسطہ محصولات تقریباً 2.50 فیصد کم تھا.

سرکاری محصولات کی مد میں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ پٹرولیم لیوی ہے جو کہ غریب اور دیہاڑی دار طبقے پر سراسر زیادتی ہے. ایک طرف 5 کروڑ روپے والی گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے والا اور دوسری طرف موٹر سائیکل میں ایک لیٹر پیٹرول ڈلوانے والا دیہاڑی دار بندہ برابر کا ٹیکس ادا کر رہے ہوتے ہیں. پیٹرولیم لیوی کا غریبوں پر فوری اور براہ راست اثر پڑتا ہے. پیٹرولیم لیوی میں بھی موجودہ حکومت ہر سال اضافہ کر رہی ہے. 2019-20ء میں 260 ارب روپے سے 73 فیصد اضافہ کر کے اس مد میں 450 ارب روپے حاصل کئے گئے تھے جبکہ موجودہ سال اس میں مزید 160 ارب روپے کا اضافہ کر کے 610 ارب روپے ٹیکس وصولی کا اندازہ لگایا گیا ہے.

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بہتر معیار زندگی گزارنے والے ملکوں میں پاکستان کا نمبر 154واں ہے. یو این ڈی پی کی اپریل 2021ء میں آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقتور لوگ قانون میں موجود خامیوں کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں. اقوام متحدہ کے تجزیئے کے مطابق پاکستان میں صرف مالی اور معاشی حوالے سے طاقتور لوگ مستفید نہیں ہو رہے بلکہ امیر اور طاقتور کی دنیا اور ہے اور عام پاکستانی اور کمزور کی دنیا اور ہے. طاقتور لوگ کمزور لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں.

@mian_ihsaan

Leave a reply