ارضِ پاک کو وجود میں آۓ 74 سال کا عرصہ بیت چکا مگر ہم آج بھی ان ممالک سے ترقی کی رفتار میں بہت پیچھے ہیں جو ہمارے وطن عزیز کے بعد وجود میں آۓ۔ اس کی ذمہ دار صرف کوٸی ایک فرد یا سیاسی پارٹی نہیں بلکہ پوری قوم ہے۔ لاتعداد قربانیوں کے بعد جو وطن عزیز حاصل کیا گیا ہم آج تک ان کا حق ادا نہیں کر سکے ہمارے آباٶاجداد نے بے شمار قربانیاں دیں تاکہ ہم غلامی سے نجات حاصل کر کے ایک کھلی فضا میں سانس لیں سکیں ایک آزاد اسلامی ریاست تشکیل دی جاۓ تا کہ ہم اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں مگر افسوس کہ بظاہر تو ہم نے انگریز  کی غلامی سے آزادی تو حاصل کر لی مگر آج بھی ہم ذہنی غلام ہیں خواہشات کے ضرورتوں کے غلام ہیں ہم خود غرض قوم ہیں جسے وطن عزیز کی سالمیت یا اسکی فلاح سے کوٸی واسطہ نہیں رہا بلکہ صرف اپنے مفاد اپنی انا کی پڑی ہے۔ 

پاکستان کے معرض وجود سے لے کر اب تک ہم میں سے کسی نے ایک دن بھی پاکستان کے بارے میں نہیں سوچا ہم نے اپنے آباٶاجداد کی قربانیوں کو علامہ اقبال اور قاٸداظم کے فرمان کو نظریہ پاکستان کو بھلا دیا ۔ آج ہم مساٸل کا رونا روتے ہیں مگر ان مساٸل کو پیدا کرنے والے اور انکی افزاٸش کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ ہمارے سامنے بحیثیت لیڈر محمد صلى الله عليه واله وسلم ، صحابہ کرامؓ اور تاریخ کے بڑے بڑے عظیم مسلمان حکمرانوں اور قاٸداعظم کی مثالیں موجود تھی مگر پھر بھی ہم نے ایک بار نہیں بلکہ بہت بار کرپٹ، بے ایمان حکمرانوں کو چنا۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں جتنی بار بھی ووٹ کاسٹ کیا صرف روٹی، کپڑے، مکان کے نا پہ کیا کبھی بھی پاکستان کے مستقبل یا اسکی فلاح کے لیے نہیں کیا۔ ہم نے یا تو جیالا بن کے یا ن لیگی بن کے یا کپتان کے ٹاٸیگرز بن کے ووٹ ڈالا ہم نے کبھی بھی بحیثیت پاکستانی بن کر ووٹ کاسٹ نہیں کیا کیونکہ ہم چند لوگوں کے ہاتھوں ذہنی غلام بن چکے ہیں ۔ 

 ہم نے آج تک کبھی نظریہ پاکستان کی بات نہیں کی ہم نے کبھی بھی اس نظریہ کو مدنظر رکھ کر ووٹ کاسٹ نہیں کیا جو علامہ اقبال اور قاٸداعظم نے ہمیں دیا تھا اور جس پہ پاکستان بنا تھا یہی وجہ ہے ہم ابھی تک ناکامیوں کا سامنا کر رہے ہم نے ذاتیات کی بنیاد پہ ووٹ ڈالا اور ڈاکو چوروں کو منتخب کر لیا ۔ غلطی تو ایک بار کی جاتی دوسری بار بھی وہی کرنا بے وقوفی کہلاتا یا جہالت

ہم اگر پاکستانی بن کر سوچتے اور پاکستان کی خاطر اس کے نظریے کی خاطر ووٹ کاسٹ کرتے تو شاید آج اس موڑ پہ نہ کھڑے ہوتے۔ پانامہ کیس ، شوگر ملز کیس، منی لانڈرنگ ، فارن فنڈنگ کیس غرض ان تمام نام نہاد سیاسی جماعتوں پہ کرپشن کیسیز اور بدعنوانیوں کے کیسیز چل رہے لیکن اس کے بعد بھی ہم ان کا احتساب کرنے کی بجاۓ کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ کہاں جاتا رہا پوچھنے کی بجاۓ ہم پھر بھی انکے ساتھ کھڑے ہیں محض زات اور علاقے اور برادری کی وجہ سے کیا یہ سب وطن عزیز سے منافقت اور بے وفاٸی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا اس وطن کو لوٹنے والے قرض میں ڈبونے والے اور غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ لوٹ کر اپنی جاٸیدادیں بنانے والے کیا اس قابل ہیں کہ ہم انہیں اس وطن عزیز پہ مسلط کر دیں۔

سیاستدان باہر رہتے باہر جاٸیدادیں بناتے علاج کے لیے اور چھٹیاں منانے کے لیے باہر جاتے اور پھر آ کر کہتے کہ ہمیں منتخب کریں جس کا سب کچھ باہر ہو وہ پاکستان کے مساٸل کو کیسے سمجھ سکتا۔ ہمیں نچلے طبقے کو اوپر لانا ہو گا  جو غریب عوام کے مساٸل کو سمجھ سکے۔ جیسے ایک مثال ہے کہ اے سی میں بیٹھا شخص کبھی بھی سورج تلے شدید گرمی میں کھڑے شخص کی تکلیف محسوس نہیں کر سکتا اسی طرح باہر رہنے والے یا اونچے اونچے محلوں میں بنگلوں میں رہنے والے حکمران کبھی بھی جھونپڑی میں رہنے والی عوام کے مساٸل نہیں سمجھ سکتے۔ ووٹ ایک قوم کے پاس اس کے وطن کی امانت ہوتی مگر ہم نے ہمیشہ اس وطن عزیز کی امنت میں خیانت کی کبھی اپنے روٹی کپڑے کے نام پہ تو کبھی فیورٹیزم کے نام پہ تو کبھی برادری کے نام پہ ووٹ ڈال کے۔ اب ہمیں خود میں شعور اجاگر کرنا ہو گا بحیثیت قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا ۔ پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لیے انہیں چننا ہو گا جو واقع ہی وطن عزیز کے ساتھ مخلص ہوں۔ ذات پات ، برادری ، فرقہ پسندی وغیرہ کی رسومات کو توڑ کر نظریہ پاکستان کی خاطر اپنے ووٹ کو ڈالنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاۓ اب ہمیں ایک دوسرے میں شعور اجاگر کرنا ہے اور ایک پاکستانی بن کر حقیقی معنوں میں فقط پاکستان کے بارے میں سوچنا ہے🌟

@sbwords7

Shares: