یہ جنگ احزاب ہے….
چاروں اطراف سے کفار و مشرکین کے لشکر آپس میں اتحاد کر کے مدینہ پر چڑھ دوڑے ہیں…
شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم سب کچھ سن رہے ہیں … سب کچھ دیکھ رہے ہیں …
اللہ کے نبی ہونے کے سبب اللہ سے دعا کر کے فرشتوں کے لشکر بلوا کر سب کو کچل دینا…. یا جنگ ِبدر کے موقع پر تلواروں کے مقابلے میں ڈنڈے اور چاقو چھریاں لیکر سارے لشکروں سے ٹکرا جانا اور فتح حاصل کر لینا کچھ مشکل نہیں.
مگر میرا نبی اپنی امت کو لڑنے کے فن اور طریقے سکھانا چاہتا ہے.

مشورہ کیا…! سب سے پہلی ترجیح "مدینہ بچاؤ” ٹھہری.
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مشورہ پسند آیا… خندق کھودنا شروع کی.
سردی، بھوک، پیاس، بارش…. اور سخت پتھر. مگر صحابہ کرام کے ساتھ ملکر کھدائی جاری رہی اور نحن الذین بایعو محمدا کے نعرے لگتے رہے.
اسی دوران پیٹ پر پتھر باندھے جاتے رہے اور سنگلاخ چٹانیں ٹوٹتی رہیں… یہاں تک کہ ان ٹوٹتی چٹانوں سے ابھرتی چنگاریوں نے روم و ایران کی فتوحات کی خوش خبری دی.

زمینی دفاع کے بعد سفارتی دفاع کے لئے اللہ کے نبی نے مشرکین مکہ کے خلاف یہودیوں تک سے معاہدہ کر لیا. کہ اگر حملہ ہوا تو یہودی مسلمانوں کے ساتھ ملکر آور مسلمان یہودیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ دشمن سے لڑائی کریں گے.

سفارتی دفاع کے بعد اللہ کے نبی نے نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حملہ آور قبائل میں پھوٹ ڈالنے کے لئے بھیجا اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو جاسوسی کے لئے. دونوں کامیاب لوٹے. اور ان سبھی تدبیروں اور محنت کے بعد وہ اللہ کی مدد آئی کہ اللہ کے لشکر یعنی آندھی طوفان نے لشکر باطل کے خیمے الٹ دئیے، ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی….اور وہ شکست کھا کر بھاگ گئے. بدعہدی کرنے والے بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا. اور اس طریقہ سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی.

یہ چھ ہجری ہے.
اللہ کے نبی نے خواب دیکھا کہ بیت اللہ میں عمرہ کر رہے ہیں. صحابہ کرام کو بتایا. سفر کی تیاری ہوئی اور چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے روانہ ہو گئے. لوگوں کو اطمنان دلانے کے لیے احرام باندھ لیا گیا لیکن راستے میں پتہ چلا کہ قریش پہلے ہی ایک لشکر تیار کر چکا ہے آپ کو عمرہ سے روکنے کے لیے.

مشورے کے بعد طے پایا کہ رکنے یا لوٹنے کی بجائے راستہ تبدیل کر کے آگے بڑھا جائے. بالآخر اللہ کے نبی حدیبیہ پہنچ گئے. حدیبیہ پہنچ کر قیام کیا. اور رات کے وقت قریش مکہ کی طرف سے بھیجے گئے ستر نوجوان جو جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے آے تھے، اسلامی قافلے کے پہرے دار کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے. اللہ کے نبی نے صلح رکھنے کی خاطر اور جنگ نہ چاہنے کے لیے بغیر کسی شرط کے ان سب کو رہا کر دیا اور معاف کر کے واپس مکہ بھیج دیا.

اگلے دن عثمان رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر قریش کی طرف بھیجا جنہوں نے ان کو مکہ میں ہی روک لیا اور ان کی شہادت کی افواہ اڑا دی. دینی غیرت کے سبب اللہُ کے نبی نے صرف میان میں تلوار لیکر عمرہ کی نیت کر کے آنے والے چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ موت پر بیعت کر لی جو بیعت رضوان کہلائی. اللہ تعالیٰ ان مومنین سے اس بیعت پر خوش ہو گیا جو ایک ایسے قتل کے قصاص کے لیے کی گئی جو قتل ہوا ہی نہیں تھا.

قریش مکہ تک بیعت کی خبر پہنچی تو انہوں نے صورتحال کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے فورا ایلچی بھیج دیا اور صلح کی گزارش کی اور سب سے پہلی شرط یہ رکھی کہ اس سال عمرہ کرنے کی بجائے مدینہ واپس لوٹ جائیں.

ایک تو صلح کی شرائط انتہائی گھٹیا محسوس ہو رہی تھیں اور اوپر سے ایلچی کا رویہ انتہائی خباثت پر مشتمل تھا . جب اس نے کہا کہ اگر صلح نامے پر محمد رسول اللہ لکھنا ہے تو جھگڑا کس بات کا. ہمارا جھگڑا ہے ہی اسی بات کا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے. اللہ کے نبی نے حضرت علی کو کہا کہ ٹھیک ہے رسول اللہ مٹا دو اور محمد بن عبداللہ لکھ دو. مورخین و محدثین نے اتنا لکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آور زبان دونوں ساکت ہو گئے لیکن کاش کوئی ان کے سینے میں اٹھتے ہوئے درد تک پہنچ سکتا کہ رسول اللہ کے حکم پر رسول اللہ لکھا ہوا مٹانا کتنا مشکل کام ہے . جب اللہ کے نبی نے یہ دیکھا تو کہنے لگے ٹھیک ہے مجھے بتاو رسول اللہ کہاں لکھا ہے؟ میں خود مٹا دیتا ہوں.
رسول اللہ کے ہاتھوں لکھا ہوا "رسول اللہ” مٹ گیا اور معاہدہ نافذ ہو گیا. اس کائنات کا عظیم ترین سچ ایک عظیم ترین انسان کے ہاتھوں مٹا دیا گیا.

عین اسی موقع پر مکہ مکرمہ سے بھاگ کر گرتا پڑتا ایک صحابی ابو جندل وہاں پہنچا. قریش مکہ کے ایلچی سہیل نے معاہدے کے مطابق سب سے پہلے اس کا مطالبہ کیا. اللہ کے نبی نے کہا کہ ابھی تو معاہدہ لکھا ہی نہیں ہم نے… مگر اس بدتمیز ایلچی نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں کوئی معاہدہ نہیں کرتا. اللہ کے نبی نے اس کی منت کرتے ہوئے کہا کہ چلو اسے میری خاطر چھوڑ دو. اس ایلچی نے کہا کہ نہیں آپ کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا. معاہدے کے بعد ابو جندل رضی اللہ عنہ اسی ایلچی کے ساتھ واپس روانہ ہو گئے. ابو جندل رضی اللہ عنہ چلاتے رہے کہتے رہے… میرا ایمان خطرے میں ہے مگر اللہ کے نبی نے صبر کی نصیحت کی اور اس کے لیے آسانی کی دعا کی.

معاہدے کے بعد اللہ کے نبی نے قربانی کے جانور زبح کرنے کا حکم دیا… لیکن دکھ اور غم کی یہ صورت حال کہ ایک صحابی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا. اللہ کے نبی نے یہ دیکھ کر خود ہی اپنا جانور ذبح کیا جس کے بعد باقی سب صحابہ کرام نے بھی کر لیا.

حضرت عمر رضی اللہ شدید غصے میں اللہ کے نبی سے کہنے لگے کہ جب ہم حق پر ہیں تو آپ نے قریش مکہ کا دباؤ قبول کر کے کیوں صلح کی. تو اللہ کے نبی نے اتنا جواب دیا کہ خطاب کے بیٹے. میں اللہ کا رسول ہوں… میرا اللہ مجھے ضائع نہیں کرے گا.

اس کے بعد آیات نازل ہوئیں اور یہ صلح حدیبیہ فتح ِمبین قرار پائی.

اللہ کے نبی واپس مدینہ پہنچے ہی تھے کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ سے چھوٹ کر مدینہ پہنچ گئے. مشرکین مکہ نے اسے واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے. اللہ کے نبی نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو واپس لوٹا دیا.

مکہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک بندے کو قتل کر کے ابو بصیر رضی اللہ عنہ واپس مدینہ پہنچے اور اللہ کے نبی کو خوش ہو کر بتایا کہ آپ نے بھی معاہدہ پورا کیا اور مجھے بھی اللہ نے ان سے نجات دے دی. مگر رسول اللہ کے ہاتھ تو ابھی بھی معاہدے میں بندھے ہوئے تھے. یہ سن کر اللہ کے نبی نے ذومعنی فرقہ کہا "اگر اس بندے کو کوئی ساتھی مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے” (جنگ کرنے کی خاموش اجازت )

ابو بصیر رضی اللہ عنہ بات سمجھ گئے. چپ کر کے مسجد نبوی اور پھر مدینہ منورہ سے نکل کر شام جانے والے راستے میں بیٹھ گئے. ابو جندل رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور اس کے بعد قریش سے بھاگ کر آنے والا ہر مسلمان ان کے لشکر میں شامل ہو کر شام کو جانے والے تجارتی قافلوں کو لوٹنا شروع ہو گیا.

قریش مکہ نے تنگ آ کر اللہ کے نبی کو گزارش کی کہ انہیں اپنے پاس بلا لیں. ہم کچھ نہیں کہیں گے.

اس طرح وہ صلح حدیبیہ جسے فتح مبین کہا گیا تھا چار سال بعد فتح مکہ کی شکل میں سامنے آئی.

وہ احباب جو پاکستان کی موجودہ بدلتی سیاسی و عسکری صورتحال سے گرم، دکھی یا پریشان ہیں… وہ حضرت عمر رضی اللہ کا غصہ، حضرت علی رضی اللہ کا کرب اور ابو جندل و ابو بصیر رضی اللہ عنہا کا دکھ سمجھ سکتے ہیں. وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حق پر ہونے کے باوجود جنگ نہ کرنے اور مشرکین اور یہود و ہنود سے معاہدے کرنے کی کیا ضرورت ہے….؟ حق پر ہونے کے باوجود صلح کی نیت سے قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے چھوڑنے میں کتنی بڑی حکمت عملی پوشیدہ ہے….! وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بڑے مقصد کے لیے…. ایک بڑے معاہدے کو سرانجام دینے کے لیے "اپنوں” کے بوریا بستر کیسے گول کیے جاتے ہیں حتی کہ انہیں دشمنوں کے بھی حوالے کیا جا سکتا ہے….! وہ جان سکتے ہیں کہ ایک بڑے مفاد کے لئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے. خیر خواہوں کو کیسے دہشت گرد کہا جا سکتا ہے. دشمن کو کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کی منتیں کرے کہ ان نان سٹیٹ ایکٹرز کو اپنے پاس رکھ لو… ہم کچھ نہیں کہیں گے انہیں.

جب آپ اکیلے ہوں اور دشمن آپ سے کئی گنا زیادہ ہو اور آپ جنگ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ ہوں تو دشمن کے دشمن کو اپنا دوست بنانے میں ہی عافیت ہے. اس سے جنگ کرنے کی بجائے اس کے ساتھ معاہدہ کرنا ضروری ہے تا کہ وہ آپ کے دشمن کے خلاف آپ کی مدد کر سکے… تا کہ آپ کا مدینہ ثانی محفوظ رہے. اور اس معاہدے کے لیے اگر آپ کو ابوجندل رضی اللہ عنہ جیسی قربانی دینی پڑے تو یہ سوچ کر قربانی دیں کہ اللہ آسانی و کشادگی پیدا کرے گا.

اور جنہیں سمجھ نہیں آ رہی یہ بات تو وہ ضرور فتوی لگائیں مگر مجھ پر نہیں بلکہ اللہ کے نبی پر لگائیں جنہوں نے یہ سارے کام صرف اس لئے کیے تا کہ مدینہ محفوظ رہے…. تا کہ مسلمان محفوظ رہیں… تا کہ ایک بڑے لشکر سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کو تیاری کا وقت مل سکے… تا کہ مسلمان ایک بڑے دشمن سےلڑنے کے لیے نئے اتحادی بنا سکے. تا کہ مسلمان اپنے مدینہ کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر کر سکیں.

اگر کسی کو شک ہو کہ میں نے کوئی روایت غلط لکھی ہے تو سیرت کی مستند اور انعام یافتہ کتاب الرحیق المختوم کا مطالعہ کر کے اپنی تسلی کر سکتا ہے.

مجھے معلوم ہے ایسے موقع پر کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ جسے اللہ کے نبی نے بچایا وہ مدینہ تھا اور یہ پاکستان ہے اور ان میں زمین آسمان کا فرق ہے تو ان سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ مدینہ کا تقدس مسلَم ہے لیکن یہ وہی مدینہ ہے جس میں منافقین رہتے تھے… یہ وہی مدینہ ہے جس میں چور کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے کیونکہ وہ چوری کرتا تھا… یہ وہی مدینہ ہے جس میں زانی کو دُرے پڑتے تھے کیونکہ وہ زنا کرتا تھا. یہ وہی مدینہ ہے جس میں نماز اور جہاد سے بھاگنے والوں کو وعیدیں سنائی جاتی تھیں کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، جہاد نہیں کرتے تھے. اگر پاکستان اس مدینے جیسا نہیں تو اسے مدینے جیسا ہم نے ہی بنانا ہے ملکر…. لیکن اسی طریقے کے مطابق جس طریقے سے اللہ کے نبی نے اسے بنایا ہے اور جس طریقے سے اللہ کے نبی نے اسے بچایا ہے… اسلام کو دنیا میں زندہ رکھنے لیے… فتح مکہ کے لیے… اللہ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے….!اپنے قیدیوں کو چھڑوانے کے لیے، مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اور اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کے لئے.

یہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اس کی حفاظت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ کے نبی نے سکھائی ہے اور کر کے دکھائی ہے. اگر بڑے دشمنوں سے لڑنا ہے اور فتح حاصل کرنی ہے تو دل بھی اتنا ہی بڑا کرنا پڑے گا. صبر اور حوصلہ قائم رکھنا پڑے گا… حق پر ہوتے ہوئے بھی اپنے جان و مال کو قربان کرنا پڑے گا تا کہ ہمارا مدینہ ثانی محفوظ رہے. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے بےشمار تجھ پہ نثار کر دوں

تیری محبت میں موت آئے تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش
یہ ایک جان کیا، ہزار ہوں تو ہزار تجھ پہ نثار کر دوں

Shares: