پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فٹنس ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے، اور اس بحران کی شدت اس وقت واضح ہو گئی جب قومی کرکٹ ٹیم کے 12 میں سے 8 کھلاڑی اپنے فٹنس ٹیسٹ میں ناکام ہو گئے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں لیے گئے فٹنس ٹیسٹ میں جن کھلاڑیوں کا امتحان ہوا، ان میں کئی سینئر کھلاڑی شامل تھے، جو پاکستان کرکٹ کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ آج ہونے والے فٹنس ٹیسٹ میں سعود شکیل، محمد رضوان، امام الحق، میر حمزہ، نعمان علی سمیت دیگر اہم کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ تاہم، تمام کھلاڑی دوسری مرتبہ فٹنس ٹیسٹ میں شرکت کے باوجود مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر سکے۔ فٹنس ٹیسٹ کے معیار کے مطابق کھلاڑیوں کو 2 کلومیٹر کا فاصلہ 8 منٹ میں طے کرنا تھا، لیکن یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکامی نے کرکٹ ٹیم کی فٹنس کے معیار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ کھلاڑیوں کا سنٹرل کنٹریکٹ بھی اسی فٹنس ٹیسٹ کی ناکامی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے تمام کھلاڑیوں کے لیے کم از کم 80 فیصد کا فٹنس ہدف مقرر کیا تھا، جس میں آج کے فٹنس ٹیسٹ میں شامل کوئی بھی کھلاڑی کامیاب نہ ہو سکا۔
فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی کی اہم وجوہات میں کھلاڑیوں کا تربیتی عمل میں نرمی برتنا اور غیر تسلسل کے ساتھ فٹنس ٹریننگ شامل ہیں۔ پی سی بی کے عہدیداران کے مطابق، کھلاڑیوں کو سخت محنت کے ساتھ دوبارہ اپنی فٹنس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل کے اہم ایونٹس میں قومی ٹیم اپنی بہترین کارکردگی دکھا سکے۔
مزید یہ کہ چیمپئینز کپ کا فائنل کھیلنے والے چار سے پانچ کھلاڑیوں کا فٹنس ٹیسٹ رواں ہفتے لیا جانے کا امکان ہے، جس کے بعد سنٹرل کنٹریکٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ فائنل کھیلنے والے ان کھلاڑیوں کو چند دن کا آرام دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے فٹنس ٹیسٹ کے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکیں۔پی سی بی اور کوچنگ عملے کی جانب سے فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی کیمپ کا انعقاد بھی متوقع ہے، جہاں کھلاڑیوں کو فٹنس کے جدید تقاضوں کے مطابق تربیت فراہم کی جائے گی۔ ٹریننگ کے دوران نہ صرف کھلاڑیوں کی جسمانی فٹنس پر کام کیا جائے گا بلکہ ان کی ذہنی تربیت اور ڈائٹ پلان بھی تشکیل دیے جائیں گے تاکہ آئندہ کے لیے وہ اپنی فٹنس کے مسائل کو حل کر سکیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی فٹنس کی صورتحال نے شائقین اور ماہرین کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی کرکٹ میں کامیابی کے لیے فٹنس ایک بنیادی عنصر ہے، اور موجودہ صورتحال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔