پاکستانی صحافت پروفیسر وارث میر جیسوں کی بہادری کے سبب زندہ ہے

0
59

آج صحافت کے عظیم استاد پروفیسر وارث میر کی پینتیس ویں برسی منائی جارہی ہے۔ پروفیسر وارث میر بائیس نومبر 1934 کو پیدا ہوئے اور نو جولائی 1987 کو ان کا 48 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔

وارث میر نے اپنی سیکنڈری اسکول کی تعلیم پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے مرے کالج میں مکمل کی جبکہ 1964 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے صحافت اور ابلاغ عامہ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور 1965 میں اسی شعبہ میں بطور لیکچرار جامع میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔

بعد ازاں وہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ مقرر ہوگئے جہاں کئی سال تک اپنی زمہ داریاں خوب نبھائیں اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ملک کے نامور اردو اخبارات میں مضامین لکھنا بھی شروع کردیا۔ وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر زیادہ تر لکھتے تھے تاہم وہ اپنے قارئین میں خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران مقبول ہوئے تھے۔ جب انہوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف اپنی قلم کے ذریعے آواز حق بلند کیا تھا۔

آج اگر صحافت پاکستان میں زندہ ہے تو وہ پروفیسر وارث میر جیسے بہادر اور عظیم صحافیوں کی بدولت ہے۔ لیکن کاش کہ کچھ بدنصیبوں کو ایسے سچے اور کھرے صحافیوں کی قدر ہوتی، وہ ان کےحق سچ کی مخالفت کرنے کے بجائے حقیقت پسندی پر خراج عقیدت پیش کرتے۔ 

اگرچہ ایسے عظیم لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں لیکن قومی اسمبلی سمیت باقی تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی وارث میر کی بے پناہ خدمات کے پیش نظر قراردادوں کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ 

پروفیسر وارث میر نے آمرانہ ادوار میں جمہوریت کے لئے جو جدوجہد کی اور اپنی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعے جو کلمہ حق بلند کیا۔ اسے ہمیشہ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں زندہ رکھا جائے گا۔

حبیب جالب اپنی ایک نظم بعنوان ’’وارث میر کے نام‘‘ لکھتے ہیں۔

حق پرست و صاحب کردار وارث میر تھا

آمروں سے برسر پیکار وارث میر تھا

لفظ اس کا تیر تھا باطل کے سینے کے لئے

اہل حق کا قافلہ سالار وارث میر تھا!

ظلم سہتا تھا، کہتا نہیں تھا ظلمت کو ضیاء

آنسوئوں کو پی کے نغمہ بار وارث میر تھا!

پروفیسر وارث میر کے بیٹے اور سینئر صحافی حامد میر اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ: "جنرل ضیاء الحق نے 1977میں مارشل لاء لگایا اور صحافت پر پابندیاں لگ گئیں تو پروفیسر وارث میر اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے۔ وہ سٹی یونیورسٹی لندن میں دورانِ تعلیم بیمار پڑ گئے۔ 

ایک اسپتال میں ان کا ہرنیا کا آپریشن ہوا جو بگڑ گیا اور حالت مزید خراب ہو گئی۔ 

لہذا ڈاکٹروں نے انہیں کہا کہ اپنی وصیت لکھ دیں۔ پروفیسر وارث میر نے ایک مختصر وصیت تحریر کی جو کچھ یوں تھی ’’میں اپنی تمام منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد اپنی اہلیہ ممتاز میر کے نام منتقل کرتا ہوں اور اپنے بچوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھیں‘‘۔

حامد میر کہتے ہیں کہ: یہ وصیت 1978میں لکھی گئی اور اُس وقت مجھ سمیت اُن کے تمام بچے اسکول میں پڑھتے تھے لیکن وہ اپنے بچوں سے اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھنے کی توقع رکھتے تھے۔

میر کے مطابق: اس وصیت کا اسپتال کے ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں نے بڑا مذاق اڑایا اور پروفیسر وارث میر کو ’’مسٹر میر! سولجر آف اسلام، اللہ اکبر‘‘ کہا جاتا۔ مذاق کے اس ماحول میں اُنہوں نے خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت کی اور کچھ دنوں بعد پروفیسر وارث میر لندن کے اسپتال میں اپنا مضحکہ اڑواتے ہوئے مکہ جا پہنچے اور خانہ کعبہ کی زیارت کی تھی۔

پروفیسر وارث میر کی تصانیف میں "فلسفہ خوشآمد پاکستان کی سیاست و صحافت، کیا عورت آدھی ہے؟ اور فوج کی سیاست نمایاں کتب ہیں۔ لہذا ہماری آج کل کی اس نوجوان نسل اور بالخصوص صحافت کے طالب علموں کو بجائے اینکروں کے پیچھے پڑنے اور ان کی مداح سرائی کرنے کے پروفیسر وارث میر جیسے بہادر صحافی کی تحاریر کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔

Leave a reply