وہان میںپھنسے پاکستانی طلبا کی جان میں جان آگئی ، کپتان کی بات بھی یاد آگئی
اسلام آباد :وہان میںپھنسے پاکستانی طلبا کی جان میں جان آگئی ، کپتان کی بات بھی یاد آگئی ،اطلاعات کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کا مرکز سمجھے جانے والے چین کے شہر ووہان نے گزشتہ ماہ وبا پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد لاک ڈاؤن ختم کیا تو صوبے ہوبے میں موجود سینٹرل چائنا نارمل یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ نے ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے ڈنر پارٹی کا اہتمام کیا۔
مذکورہ یونیورسٹی میں ایم فل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طالب علم نسیم بلوچ نے اس حوالے سے بتایا کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ہم سب نے مل کر گوشت اور سبزی مارکیٹ سے مٹن اور سبزیاں خریدیں اور یونیورسٹی کے گارڈن میں کڑاہی تیار کی اور سب ایک دوسرے سے مل کر محظوظ ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ان سب لوگوں نے وبا کی وجہ سے ماند پڑنے والی خوشیوں کو انجوائے کرنے کے لیے مل کر جشن منایا۔
وہان اور چین کے دیگرعلاقوں میں پھنسے طلبا کہا کہنا ہےکہ پہلے ہم بہت پریشان تھے اوربار بار حکومت پاکستان سے شکوے اورشکایات کرتے تھے ، اس وقت وزیراعظم عمران خان کہتے تھے کہ پریشان نہ ہوں جہاں ہیں وہاں ٹھیک ہیں ، بہت جلد وقت آنے والا جب تم واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹ آو گے لیکن ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی ،
چین میں زیرتعلیم پاکستانیوں کا کہنا ہےکہ اس وقت ہمیں بہت تکلیف ہوتی تھی ، لیکن اب احساس ہورہا ہے کہ کپتان کی بات ٹھیک تھی ، الحمد للہ حالات بہت بہترہوگئے ہیں، اوراگراس وقت ہم زیادہ ضد کرتے تو پاکستان جاکران حالات میں جب کہ پاکستان میں یہ وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ، پھر کہاں جاتے
نسیم بلوچ کے مطابق کئی ہفتوں کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات کے دوران ہم نے جشن ضرور منایا مگر اس دوران ہم نے تمام حفاظتی اقدامات اختیار کیے اور تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا۔ووہان میں رہنے والے طلبہ کے لیے وائرس کے پھیلنے سے لے کر نقل مکانی پر پابندی تک کا پورا تجربہ خاصہ تکلیف دہ تھا اور نسیم بلوچ کے مطابق اس وجہ سے کئی ڈپریشن کا شکار بھی ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ایک دوسرے کے کمروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی اور کھانا بنانے پر بھی پابندی عائد تھی، یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن ہمارے دروازے تک ضروری اشیا پہنچاتی، تاکہ ہم کمروں سے باہر نہ آسکیں‘۔
ووہان میں کورونا پھیلنے کے آغاز سے خوف اور اضطراب کے باعث کئی لوگوں نے حکومت سے وہاں پھنسے ہوئے طلبہ کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی اپیل کرنا شروع کردی۔لیکن وقت گزرنے اور حالات کی بہتر سمجھ ہونے کے ساتھ یہ دلیل بھی ختم ہوگئی۔نسیم بلوچ کے مطابق لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد سے وطن واپس بھیجنے کا مطالبہ بھی ختم ہوگیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمیں ابھی بھی یونیورسٹی کیمپس سے باہر جانے کی اجازت نہیں البتہ اس پابندی سے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کیوں کہ کیمپس کے اندر ضرورت کا ہر سامان دستیاب ہے۔یونیورسٹی کی حدود میں رہنے کی پابندی کے باوجود طلبہ خوش ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
ووہان یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم علی ناگری نے بتایا کہ ’پچھلے چند مہینوں کے مقابلے میں اب ہم کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ کھانا کھانے کے لیے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سحری اور افطاری کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، جس کے بعد مل کر عبادت بھی کرتے ہیں، یونیورسٹی میں موجود مشرق وسطی کے اسٹور میں حلال کھانے کے آپشنز بھی دستیاب ہیں‘۔
علی ناگری کے مطابق پاکستانی طلبہ اب شکرگزار ہیں کہ انہیں واپس ملک نہیں بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ ووہان، کورونا وائرس کا مرکز تھا اور جب طلبہ نے سنا کے وہاں اس وائرس کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تو انہیں کافی سکون ملا۔ان کا کہنا تھا کہ ’طلبہ شکر گزار ہیں کہ انہیں پاکستان واپس نہیں بھیجا گیا جہاں اب صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہورہی ہے‘۔
لاہور کے چینی قونصل خانے کے ڈپٹی قونصل جنرل پینگ ژینگو نے کہا کہ ’چین کی حکومت نے پاکستانی طلبہ کو اپنا سمجھ کر ان کا خیال رکھا، ان کی دہلیز پر تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں‘۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم پاکستانی طلبہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اپنی تعلیم وہاں مکمل کرسکیں‘۔
26 اپریل کو چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان نے بتایا تھا کہ ووہان کے ہسپتالوں میں اب کووڈ 19 کا کوئی مریض زیر علاج نہیں جبکہ ہسپتال میں زیر علاج آخری کورونا کا مریض بھی صحتیاب ہوکر گھر چلا گیا تھا۔وائرس کے کیسز ختم ہونے کے ساتھ اب ووہان میں زندگی معمولات پر واپس آتی نظر آرہی ہے اور سڑکوں پر لوگوں کا رش بھی دوبارہ نظر آرہا ہے۔
ووہان یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے طلبہ حمزہ باجوہ نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کو کیمپس گراونڈ میں آزادانہ طور پر گھومنے کے لیے ایک ڈیجیٹل پاس دیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ان پاسز کی مدد سے یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کی صحت اور ان کے آنے جانے پر نظر رکھ سکتی تھی۔
حمزہ باجوہ کے مطابق ’شروعات میں یہ سب کافی مشکل تھا، ہم مکمل طور پر یونیورسٹی پر انحصار کررہے تھے کہ وہ ہماری ضروریات کو پورا کریں، حتیٰ کے کھانے پینے کے لیے بھی لیکن اب ہم آن لائن کھانا منگوا سکتے ہیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ کے لیے ایک نیا آغاز ہے کیوں کہ وہ ایک اندھیری رات سے گزر کر روشنی میں آئے ہیں۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 500 طلبہ اس وقت ووہان کی مختلف یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس وبا کے آغاز سے ہی ان طلبہ کو چین کی حکومت کی جانب سے مالی مدد فراہم کی گئی جو براہ راست ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ ووہان میں لاک ڈاؤن کے آغاز سے 3 ہزار 500 رینمنبی (چینی کرنسی یوآن) ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے جبکہ کچھ کے اکاؤنٹس میں 786.5 رینمنبی بھی منتقل کیے گئے۔
ہوزونگ ایگریکلچر یونیورسٹی میں پلانٹ بریڈنگ اور جینیٹکس میں پی ایچ ڈی کرنے والے امان اللہ بلوچ نے بتایا کہ دیگر طلبہ کو واٹس ایپ جیسی ایک ایپلیکیشن ’وی چیٹ‘ پر پیغامات بھی موصول ہوئے جن میں بتایا گیا کہ پاکستانی سفارت خانہ ان کے اکاؤنٹس میں جلد از جلد پیسے منتقل کرے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ڈراؤنا خواب تقریباً ختم ہوچکا ہے، طلبہ کو اب اجازت ہے کہ وہ کیمپس میں کھیل سکیں یا ورزش کرسکیں، ہماری زندگی اب آہستہ آہستہ معمول پر آرہی ہے‘۔
امان اللہ بلوچ کے مطابق چند پاکستانی عہدیداروں نے کچھ ہفتوں قبل شہر کا دورہ بھی کیا تھا۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان عہدیداروں نے ہم سے ہماری پریشانیوں کے حوالے سے پوچھا اور بدلے میں رمضان سے قبل کھانا فراہم کرنے کے وعدے کیے‘۔
انہوں نے ان طلبہ کے حوالے سے بھی بات کی جن کی تعلیم رواں سال جون اور جولائی میں مکمل ہونے جارہی ہے، امان اللہ بلوچ کے مطابق ’ان طلبہ کو تعلیم مکمل کرکے پاکستان واپس جانا تھا، لیکن اب انہیں واپسی کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں کیوں کہ حکومت نے ان کو واپس لانے کے حوالے سے ابھی کوئی پالیسی واضح نہیں کی‘۔