پاکستانیت۔۔۔۔۔۔تحریر:محمد ثقلین

0
58

پاکستان سے محبت،اس کی زبان و ثقافت اوراقدار کو اپنانا،اور اس کی تعمیرو ترقی میں عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنا پاکستانیت ھے پاکستان ہمارا وطن ہے
وطن ایک گھر کی مانند ہوتا ہے جس میں ہر شخص اپنے گھر اپنے خاندان اپنے دوست و احباب کے ساتھ خوشی سے زندگی گزارتا ہے ایک انسان کے لیے اس کے وطن کی اہمیت ماں باپ ،بھائی بہن سے بڑھ کر ہوتی ہے جس کا نظارہ سرحدوں پران جاں بازجوانوں کی شکل پرکیا جاسکتا ہے جو ملک کی حفاظت وصیانت کے لیے اپنے گھر بار کی پرواہ کیے بغیر پوری مستعدی کے ساتھ رات ودن ایک کیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ہمارے شہیدوں نے ہمیں ایک ہی درس دیا ہے کہ اپنے گھر اپنی اولاد اپنی دولت سے بڑھ کر اس ملک کی حفاظت کرنی ہے اپنے کلچر کو فروغ دینا ہے اپنی زبان کو فروغ دینا ہے آج تک پاکستان میں انگلش کلچر کو فروغ دیا گیا یہاں پر انگلش لباس کو اہمیت دی گئی جس شخص کو انگریزی بولنا آتی ہے وہی پڑھا لکھا ہے اس بات کو فروغ دیا گیا ہماری زبان ہمارے لباس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی یہاں تک ہمارے وزراء اعظم بھی انگلش لباس پہنا کرتے ہیں اپنی ساری تقاریر انگریزی میں کرتے ہیں اگر ہمیں اپنا سافٹ امیج بہتر بنانا ہے تو ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا اپنی ثقافت اپنے کلچر اپنی روایات کو فروغ دینا ہو گا

وزیر اعظم عمران خان صاحب جو کہ رہے بھی انگلش ممالک میں لیکن انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستانی کلچر کو فروغ دیا پاکستانی لباس کو فروغ دیا اگر وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کے باہر کے سارے دورے دیکھے جائے تو ہمیں ہمارا قومی لباس دیکھائی دے گا وزیراعظم کا قومی لباس اور زبان اردو میں تقاریر کرنا خوش آئند ھے۔مگر پاکستانیت کے فروغ کے لئے محض اتنا کافی نہیں ھے ہمارے سلیبس میں اردو کو فروغ دینا ہو گا ہمارے تعلیمی نظام میں انگلش تاریخ دانوں کی جگہ اسلامی تاریخ دانوں کی تاریخ ڈالنی ہو گی ہمیں ہماری قوم کے بچے بچے کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا ہو گا بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ملک میں بچہ بچہ
” Jafri chosr ”
کو جانتا ہے لیکن مولوی عبد الحق اور سرسید احمد خان کو نہیں جانتے کیونکہ ہماری رگوں میں انگلش کلچر کو بھر دیا گیا ہے کہا جاتا ہے جو قوم اپنی تاریخ کو بھول جائیں وہ قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے ہمارے ٹی وی ڈراموں کو بدل دیا گیا ہمارے فنکاروں نے قوم کو ہمارے کلچر سے ہٹا کر فحاشی پر لگا دیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہونا چاہیے تھا وہاں صبح ڈانس موسیقی شوز دیکھائیں جا رہے ہیں ہماری اداکارہ کے لباس انتہائی نازیبا ہوتے ہیں جو ہمارے معاشرے پر اثرات چھوڑتے ہیں ہمارے کالجوں ہماری یونیورسٹیوں میں انگلش بولنے پر زور دیا جا رہا ہے ہمیں انگریزی کلچر کا عادی بنایا جا رہا ہے ہمیں ہماری زبان کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنا ہو گا عدالت عظمی کے فیصلوں کی رو سے اردو کو قومی کے ساتھ دفتری زبان کے طور پر رائج کرنا ھوگا۔علاقائی زبانوں کو بھی ترقی اور فروغ دینا ھو گا۔دفاتر اور عدالتوں کی دستاویز عام آدمی کے لئے ھوتی ہیں مگر انگریزی زبان میں۔جس سے اس کا دور سے بھی واسطہ نہیں۔کیا ملکی نظام عام آدمی کے لئے نہیں ھوتا؟انگریزی علمی ترقی کے لئے بلا شبہ ضروری ھے ۔مگر مخصوص اشرافیہ نے اسی کے سہارے بیوروکریسی اور اہم اداروں پر قبضہ کر رکھا ھےاور ایک طبقاتی تضاد سو سائٹی میں بڑھتا جا رھا ھے۔اس کا سد باب بھی بہت ضروری ھے۔قومی زبان بولنے سے زیادہ حقیقی معنوں میں اداروں میں رائج کرنے سے پاکستانیت فروغ پائے گی۔

Leave a reply