قصور جنسی اسکینڈل: پپو نامی بہروپیا یا چھلاوا ،پولیس تاحال گرفتار کیوں نہ کرسکی؟ مبشر لقمان حقیقت سامنے لے آئے

پاکستان کے صف اول کے صحافی اور سینئیر اینکر پرسن مبشر لقمان نے قصور جنسی اسکینڈل کے سلسلے میں پولیس کی سستی اور خاموشی پر برہمی کا اظہار کیا ہے-

باغی ٹی وی : سینئیر صحافی مبشر لقمان نے اپنے آفیشل یوٹویب چینل پر جاری ویڈیو میں قصور میں میڈیکل کالج میں سو سے زائد طالبات کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی پر پولیس کی جانب سے خاموشی پر برہمی کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان واقعات کی روک تھا م کے لئے کوئی واضح قانون بنائے-

مبشر لقمان نے کہا کہ گزشتہ سال معصوم بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا اور اس وقت بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے واویلا کیا تھا جس کی وجہ سے قاتل پکڑا گیا اور اس کو سزا ہو گئی اور اسکے قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور ہمارے پاکستان کی بچیاں محفوظ ہوئیں اورحکومت کی کوشش سے باقاعدہ قانون کی پاس ہوا ۔

لیکن اب پھر وہ ٹائم آ گیا ہے کہ میں دوبارہ آپ کے اوپر زور لگاؤں تاکہ اس مسئلے پر پوری طرح قانون سازی ہو سکے اب اسی طرح کا ایک اور واقعہ زینب انسٹی ٹیوٹ نرسنگ کالج موضع بنگلہ کمبوہاں قصور شہر میں رونما ہوا ہے اور اب پھر جس میں بتایا جارہا ہے کہ سو سے زائد بچیوں کا جنسی استحصال کیا گیا ہے اور ان کو پیپرز میں پاس کرنے کے نام پر زیادتی کی گئی ہے اور معصوم بچیوں کے مستقبل کو اور ان کی زندگیوں کو داﺅ پر لگایا گیا ہے۔

اور اس حوالے سے جس بچی نے بھی آواز بُلند کرنے کی کوشش کی اس کو عبرت کا نشانہ بنایا گیا-پنجاب پولیس نے تاحال صرف دو ایف آئی آر دو معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات کی درج کی ہیں جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں 100 سے زائد بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کے ساتھ ظلم کیا گیا جبر کیا گیا اور یہ ظلم ان بچیوں کے ساتھ بار بار کیا گیا-

مبشر لقمان کے مطابق کہ اب پنجاب حکومت پپو نلکا نامی اس جنسی درندے کیخلاف ایف آئی آر درج نہیں کررہی کیونکہ اس بہروپیے نے ایک جعلی صحافی کا بھی روپ دھار رکھا ہے لیکن اب وہ جعلی صحافی ہے یا اصلی صحافی ہے وہ بہروپیہ ہے یا کطھ لیکن اس کا اثرو رسوخ ہے کہ پنجاب پولیس اس کے خلاف پرچہ کاٹنے میں ہچکچا رہی ہے-

انہوں نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ س طرح کرنا پنجاب پولیس کی پُرانی روایت ہے سینئیر صحافی نے مزید کہا کہ وہ خود بھی پولیس کے پاس دو مرتبہ پرچہ کروانے کے لئے جا چُکے ہیں لیکن انہوں نے پرچہ نہیں کیا دو سال سے درخواستیں پڑی ہوئی ہیں وہاں-

مبشر لقمان نے بتایا کہ اہل علاقہ بنگلہ کمبوواں و متاثرین زینب انسٹی ٹیوٹ میڈیکل کالج قصور کا کہنا ہے کہ قصور کا میڈیا جس طرح زینب والے معاملے پر شروع سے خاموشی اختیار کئے ہوا تھا تاہم جب قومی میڈیا پر جب بات آئی تو عوام کو حقائق کا علم ہوا۔ایک بار پھر قصو ر کا مقامی میڈیا پپو نلکا جیسے بھیڑیا کو سپورٹ کررہا ہے جس میں پولیس بھی اس کی مدد کرنے میں سرفہرست ہے۔

مبشر لقمان نے خیال ظاہر کیا کہ اس سب کا مطلب ہے کہ پیسوں کا لین دین ہو رہا ہے اور مجرموں سے پیسے لے کر مسب کو چُپ کروایا جا رہا ہے اب اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ کون کون کس جگہ پر صحافت کے نام پر کیا کیا کر رہا ہے-

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پپو نلکا نرسنگ کی طالبات کو واٹس ایپ پرمیسیج کرکے اپنے کمرے میں بلاتا تھا اور اپنی جنسی ہوس پوری کرتا تھا انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس وہ واٹس ایپ چیٹ بھی موجود ہے جن میں وہ لڑکیوں کو اپنے پاس بلانے کے لئے ڈراتا دھمکاتا اور پیپرز میں پاس کرنے کا لالچ دیتا تھا اور اس کی مبینہ آڈیو بھی ان کے پاس آ چکی ہے لیکن اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ان پر لازم ہے کہ وہ سب کے سامنے پیش نہ کریں لیکن یقین کریں کہ وہ اتنی غلیظ اور غلاظت سے بھر پور ہے کہ اگر آپ اور خاص طور پر والدین سنیں گے تو کانپ جائیں گے کہ ابھی تک اس کے اوپر پرچہ کیوں نہیں ہو رہا –

سینئیر صحافی نے ویڈیو میں میڈیکل کالج کے بارے میں مزید انکشاف کیا کہ اس کالج کا لائسنس جعلی ہے اور اس کالج نے سینکڑوں طالبات کو جعلی ڈگریاں جاری کی ہیں جس پر مقامی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسران بھی اس پر کاروائی کرنے پر گریزاں ہیں پتہ نہیں کس کس کو مہینہ جاتا ہفتہ جاتا ہے-

مبشر لقمان نے سوال اٹھایا کہ اگر اس درندے کے خلاف اگر جلد از جلد کاروائی نہیں ہوتی تو آپ سوچیں کہ معاشرے کے اندرلوگوں کی عزتیں محفوظ رہ سکیں گی لوگ کیا سکول ، یونیورسٹیز اور کالج میں اپنی بچیوں کو بھیج سکیں گے-

انہوں نے بتایا کہ دو ایف آئی آر درج ہوئیں جبکہ باقی درخواستوں پر کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی تاہم بعد ازاں باغی ٹی وی کی جانب سے خبر ریلیز ہو نے کے بعد قصور پنجاب پولیس کا موقف بھی سامنے آ یا، پنجاب پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے-جس میں کہا گیا ہے کہ 2 طالبات کو ہراساں کیا گیا جن کی شکایات پر مقدمات درج کر لیے گئے تھے ۔ مزید الزامات کی تحقیقات کے لیے مندرجہ ذیل افسران پر مشتمل ایک مشترکہ انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔جن میں یہ افسران شامل ہیں-
1. ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل (چیئرمین)
2. ایڈیشنل ایس پی ، قصور
3۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، ڈی ایچ او قصور
مسز بشری انور ، پرنسپل اسکول آف نرسنگ ، ڈی ایچ کیو ، قصور

کمیٹی 3 دن میں مثبت جانچ پڑتال اور سفارشات اور گزارشات پر مبنی رپورٹ کرے گی جس کے حوالے سے تفتیش جاری ہے سینئیر صحافی نے اس کمیٹی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی اور اس میں افسران کا مطلب یہ ہے کہ چھیچھڑوں کی رکھوالی پربلی کو بٹھا دینے والا حساب ہے –

اینکر پرسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور مقامی صحافی اتنے بڑے مجرم کو بچانے کے لئے زور لگا رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کسی طرح بچ جائے جس کے اوپر الزام ہے کہ 100 سے زائد بچیوں کے ساتھ زیادتی کی-

مبشر لقمان نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ نہ صرف اس ویڈیو کو اتنا پھیلائیں کہ ہر آدمی کو پتہ چلے کہ اور یہ لوگ بے نقاب ہوں بلکہ ان کو پناہ دینے والے ان کی پشت پناہی کرنے والے ان کو بچانے والے جو لوگ اپنے آپ کو صحافی کہتے ہیں پولیس والا کہتا ہے سول سوسائٹی والا کہتے ہیں وہ سب کے سب بے نقاب ہوں اور ان سب کے اوپر بھی پرچے ہوں-

سینئیر صحافی نے کہا کہ بچیوں کے اس معاملے پر آرام سے سونا نہیں ہے بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں یہ آپ کی بھی ہیں میری بھی ہیں مبشر لقمان نے کہا کہ وہ بچیوں کا نام نہیں لینا چاہتے اور واٹس ایپ چیٹس نہیں دکھا سکتے کیونکہ بہرحا ل ان کی بھی عزت ہے اللہ تعالیٰ ان کی عزتیں قائم رکھیں لیکن اس مسئلے کا سب سے بڑا پوائنٹ یہ ہے کہ حکومت اور پنجاب پولیس اس واقعے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور مجرموں کوچھوڑنے کا یا انہوں نے پورا ایک طریقہ کار بنایا ہوا ہے –

انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس جو بھی میڈیا پر ہے سوشل میڈیا پر ہے اس واقعے کو خود سے اپنی زبانی شئیر کریں تاکہ وہ مجرم اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ے نقاب ہوں-

Comments are closed.