مزید دیکھیں

مقبول

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا .تحریر:حنا

انسانوں میں عیب دیکھنا
القرآن:
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی.
اور طور سیناء کی.
اور اس پر امن شہر (مکہ) کی.
البتہ یقینا ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ۔
کبھی دل چاہتا ہے خدا سے کلام کرنے کو، لوگوں کے رویوں پر آہ وبکاہ کرنے کو۔ ہم دل تو رکھتے ہیں درد نہیں، ضمیر تو رکھتے ہیں بیداری نہیں، الفاظ تو رکھتے ہیں انداز بیان نہیں؟ ہم ہیں کیا؟ کیا انسان ہیں؟ مسلماں ہیں؟ کیا پہچان ہے ہماری؟ ہمارا وجود؟ ہمارا مذہب؟ ہمارا نام؟ ہمارا کام؟ ا ٓخر کیا ہے ہم میں خاص جو ہمیں لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی اجازت دیتا ہے؟ انسان کتنا ہی خود پر ناز کرے، غرور کرے لیکن کہیں نہ کہیں وہ اپنے نا مکمل وجود کی ترجمانی کر ہی دیتا ہے، خدا کی تخلیق میں نقص نکالنا، انسان ہو کر غیرانسانی سلوک کرنا، خود کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان سمجھنا لیکن جب اس کیاپنی ذات کی بات آجاتی ہے تو خود کو انتہائی مہذب، نیک گفتار، عاجز اور خوش طبع شخصیت تسلیم کروانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتا، یہ درست ہے کہ شکل صورت خدا کی دین ہے، اور کسی کو بھی اس میں کسی قسم کا نقص نکالنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس بات کا صرف اور صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپکو خدا کی تخلیق پر عتراض ہے لیکن آپ کی خود کی شکل و صورت، مزاج، کردار کی بات آئےتو، میں تو ایسا؟ میں تو ویسا؟ میں اتنا محنت کش؟ میں اتنا صابر؟ میں اتنا دانش؟ میں اتنا خوش شکل؟ میں سب کچھ مگر تم کچھ بھی نہیں کا نعرہ! توبہ استغفار، اللہ بچائے ایسے مرد اور خواتین سے، پیٹ بھرنے کے لئے کھانا نہیں بس عیب نکانے کی مہم ہی کافی ہوتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے۔

دوسروں سے تو پیدائشی دشمنی لے کر پیدا ہوتے ہیں کچھ لوگ یا یہ کہہ لیجیے خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں، یہ الفاظ اٰپ نے اکثر سنے ہوں گے:

ارے یہ بھی کوئی طریقہ ہوا کرتا ہے، یہ بھی کوئی انداز ہے،
فلاں لڑکی ایسی فلاں ایسی
اچھا ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﻗﺪ والی لڑکی ؟
اچھا وہ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻭﺍﻟﯽ؟
ﺟﻮ ﯾﻮﮞ ﭼﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ؟ ( ﻧﻘﻞ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ )
ﮐﻮﻧﺴﺎ لڑکا ؟
ﻭﮦ ﮔﻨﺠﺎ؟
وہ ﻣﻮﭨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﻭﺍﻻ؟
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺗﻨﺎ ” ﮐﻮﺟﺎ ” ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ؟
ﮨﻢ “ﺳﻮﺭﮦ ﺗﯿﻦ” ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ۔
ﮐﺘﻨﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﻨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ، ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻻ، ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﺎﮎ ﻣﻮﭨﯽ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺩﺍﻧﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮫ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺒﺼﺮﮮ، ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ۔۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﺴﯿﻦ ﭼﮩﺮﺍ ﺳﺒﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺣﺴﻦ ﺑﮭﯽ ﺭﺏ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺁﭖ ﺍﮌﺍ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﮑﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺭﺏ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺳﺮﯼ، ﺗﺴﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ ( ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﺧﺖ ) ﭘﺮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺬﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﯾﮧ ﯾﺎﺩ ﮨﯽ ﮐﺐ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ؟ !

ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞِ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﻧﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﻐﺮﺍﻓﯿﺎﺋﯽ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﻮﭼﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﺎﺋﻨﯿﺰ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻗﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮎ ﮐﺎ، ﺍﻧﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﭘﮭﯿﻨﯽ / ﭼﭙﭩﯽ ﻧﺎﮎ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ refer ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻓﺮﯾﻘﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﻨﮕﺮﯾﺎﻟﮯ ﺑﺎﻝ، ﭼﻮﮌﯼ ﺟﺴﺎﻣﺖ، ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﻣﺼﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺃَﻧْﺖَ ﺣَﺴَّﻨْﺖَ ﺧَﻠْﻘِﻲ ﻓَﺤَﺴِّﻦْ ﺧُﻠُﻘِﻲ
ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ( ﺑﺎﮨﺮ ) ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﮨﻤﺎﺭﺍ ( ﺍﻧﺪﺭ ) ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ۔

ﺭﻭﺯﻭﯾﻠﭧ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻗﻮﻝ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ :
”Great minds discuss ideas; average minds discuss events; small minds discuss people.” ﺍﺳﮑﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺮﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﮍﯼ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺲ کیٹاگری میں ہوتا ہے