نئی آئینی ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری میں نمائندگی کا طریقہ کار تبدیل

NA

پاکستان میں حالیہ آئینی ترمیم نے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کی تشکیل میں اہم تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی کا طریقہ کار مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ہے، جس سے عدلیہ میں ججز کی تقرری کے عمل میں شفافیت اور توازن کی امید کی جا رہی ہے۔پارلیمانی ذرائع کے مطابق، نئی آئینی ترمیم کی روشنی میں اب پارلیمانی کمیٹی میں نمائندگی کا نظام متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ کمیٹی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی تعداد ان کی پارلیمانی طاقت کے مطابق ہوگی، جس سے ایک بہتر توازن قائم ہو گا۔نئے طریقہ کار کے مطابق، مسلم لیگ ن کو کمیٹی میں سب سے زیادہ نمائندگی حاصل ہوگی، جس کے تحت یہ جماعت قومی اسمبلی سے تین اور سینیٹ سے ایک رکن کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن کی نمائندگی مختص کی گئی ہے۔اسی طرح سنی اتحاد کونسل کو بھی قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مزید برآں، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کو بھی کمیٹی میں نمائندگی حاصل ہوگی، تاہم یہ دونوں جماعتیں اپنے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کے ذریعے اپنی نمائندگی کریں گی۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق، مختلف جماعتوں سے نام موصول ہونے پر فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ نئی تشکیل کا عمل تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے گا تاکہ ججز کی تقرری میں کسی بھی قسم کی تاخیر سے بچا جا سکے۔یہ تبدیلیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ حکومت عدلیہ میں اصلاحات کی خواہاں ہے اور ججز کی تقرری کے عمل میں شفافیت اور متوازن نمائندگی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ ملنے کی امید بھی کی جا رہی ہے، جس سے قومی مفاد میں فیصلے کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔یہ نئی آئینی ترمیم اور اس کے تحت ہونے والی تبدیلیاں ملکی سیاست میں ایک اہم پیشرفت کا سبب بن سکتی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ملک میں عدلیہ کی آزادی اور اس کے کردار پر مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ حکومت اور پارلیمان دونوں ہی ملکی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

Comments are closed.