پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے والی معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 26 سال گزر گئے-
باغی ٹی وی : پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ان کا اصل وطن بہار کے ضلع دربھنگہ میں لہریا سراے تھا۔ان والد ،شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے،قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں، اور اس میں ان کو اپنے والد کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔پروین نے میٹرک کا امتحان رضویہ گرلز اسکول کراچی سے اور بی اے سر سید گرلز کالج سے پاس کیا۔
1972 میں انھوں نے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی، اور پھر لسانیات میں بھی ایم۔ اے پاس کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ عبداللہ گرلز کالج کراچی میں بطور ٹیچر ملازم ہو گئیں۔1976ء میں ان کی شادی خالہ کے بیٹے نصیر علی سے ہوئی جو ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔یہ شادی پروین کی پسند سے ہوئی تھی، لیکن کامیاب نہیں رہی اور طلاق پر ختم ہوئی۔
ڈاکر نصیر سے ان کا ایک بیٹا ہے۔کالج میں 9 سال تک پڑھانے کے بعد پروین نے پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا اور انھیں 1982 میں سیکنڈ سکریٹری سنٹرل بورڈ آف ریوینئو مقرر کیا گیا۔بعد میں انھوں نے اسلام اباد میں ڈپٹی کلکٹر کے فرائض انجام دئے۔محض 25 سال کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام "خوشبو” منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔انھیں اس مجموعہ پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
پروین کی شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی تھی جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔اسی کے سہارے انھوں نے زندگی میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔
18 سال کے عرصہ میں ان کے چار مجموعے خوشبو ،صدبرگ،خودکلامی اور انکار شائع ہوئے۔ان کی کلیات ماہ تمام 1994 ء میں منظر عام پر آئی۔ 1985 میں انھیں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔اس کے علاوہ ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور ملک کے وقیع ایوارڈ "پرائڈ آف پرفارمنس” سے بھی نوازا گیا۔26 دسمبر 1994ء کو ایک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا-
پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں جنھوں نے مرد کے حوالہ سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبا ت کی لطیف ترجمانی کی۔ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روائتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔
ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔
پروین شاکر خاتون شاعروں میں اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ بےباک لہجہ استعمال کرتی ہیں، اور انتہائی جرات کے ساتھ جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات پر شرم و حیا کے پردے نہیں ڈالتیں ۔ان کے موضوعات محدود ہیں، اس کے باوجود قاری کو ان کی شاعری میں نغمگی،تجربات کی صداقت،اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔
نمونہ کلام۔
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں
ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں
بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں