آج پروین شاکر کا 29 واں یوم وفات ہے۔
چھبیس نومبر 1994 کی وہ صبح مجھے اور میرے سرکاری معاصرین کو اب بھی یاد ہوگی جب ایک ناقابل یقین اطلاع ملی کہ ہماری بیچ میٹ پروین شاکر ٹریفک کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گئی ہیں۔ وہ صبح کے وقت دفتر جارہی تھیں۔ گاڑی کے ڈرائیور کے بارے میں بھی اطلاع کچھ اچھی نہیں تھی لیکن پروین کے بارے میں سب لوگ پُرامید تھے کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ زخم جلد مندمل ہوں گے اور وہ اپنی زندگی میں واپس آ جائے گی۔ اس زمانے میں موبائل فون عام نہیں تھے اس لئے لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ نہیں مل سکتی تھی۔ بہت سے لوگ ہسپتال میں جمع تھے اور کچھ مجھ جیسے کاہل الوجود دفتر میں بیٹھے فون کر کر کے ادھر ادھر سے خبر حاصل کر رہے تھے۔
بالآخر خبر آ گئی لیکن یہ وہ خبر نہیں جس کے لئے دعائیں کی جارہی تھیں۔ قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ پروین شاکر اپنی بھری جوانی میں اپنے سول سروس کے کیرئر کے آغاز اور شاعرانہ کیرئر کے عروج پر پہنچ کر دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اس کی عمر گو کہ صرف بیالیس برس تھی لیکن وہ اتنی کم عمری میں ناصر کاظمی کی طرح شعر و ادب کی دنیا میں ایسا مقام و مرتبہ حاصل کر چکی تھی جو بہت کم شعراء کو نصیب ہوا۔ شاید کاتبِ تقدیر کی مشیت میں اس کی آمد کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ اس شہرت اور مقام و مرتبے کا لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اس زمانے کا اسلام آباد ایک خاموش اور پُرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ اس کی المناک موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ اس کے جاننے والوں کو پرسہ دینے لگے۔

وہیں دفتر میں بیٹھے بیٹھے مجھے صرف دس دن پہلے کی بات یاد آ رہی تھی۔ مجھے اسلام آباد میں تعینات ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اور مجھے کسٹمز سروس کے کسی صاحب اختیار کا رابطہ نمبر درکار تھا۔ میں نے اپنے رفیقِ کار سرور زیدی سے کہا کہ کسٹم کے کسی بھی دفتر میں فون کر کے متعلقہ افسر کا فون نمبر پوچھ لیں۔ سرور نے تھوڑی دیر بعد ہی گھبرائے ہوئے لہجے میں بتایا کہ فون کسی میڈم نے براہ راست ہی اٹھا لیا جو آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں اور آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ وہ آپ کا نام سننے کے بعد غصے میں لگتی ہیں۔
آج پروین شاکر کا انتیسواں یومِ وفات ہےhttps://t.co/NaUngX71Ff
— Hussain Saqib🇵🇰 (@hsaqib17) December 25, 2023
"ثاقب!” فون ملتے ہی دوسری طرف سے آواز آئی، "اسلام آباد کب آئے؟” مجھے آواز پہچاننے کے لئے ذرا مہلت چاہئے تھی اس لئے آئیں بائیں شائیں کرنے لگا تو پھر آواز آئی کہ اب کیا مجھے اپنا تعارف کرانا پڑے گا۔ میں نے ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے فورا” جھوٹ گھڑ کر کہا کہ کچھ ہی ہفتے ہوئے ہیں۔ میں آواز پہچان گیا تھا کیونکہ یہ سگنیچر ڈانٹ ڈپٹ صرف پروین شاکر کی ہی ہو سکتی تھی۔
"آتے ہی فون کیوں نہیں کیا؟ ملنے کیوں نہیں آئے؟”
میں نے فوراً وعدہ کیا کہ جلد حاضر ہوں گا۔ ابھی یہ وعدہ پورا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ دن آن پہنچا۔ صرف دس دن پہلے کی بات تھی کہ وہ زندہ سلامت نہ صرف ہمارے درمیان موجود تھی بلکہ ڈانٹ ڈپٹ اور شکوہ شکایت بھی کر رہی تھی۔
پروین شاکر سول سروس میں ہماری ہمعصر تھی جسے ہماری زبان میں بیچ میٹ کہتے ہیں۔ اس کا ہمعصر ہونا ایک اعزاز تھا۔۔اگرچہ وہ اپنے منفرد شاعرانہ لب و لہجے اور اپنی ناموری کی وجہ سے ہم میں بہت ممتاز حیثیت رکھتی تھی پھر بھی اس کے ساتھ معاصرانہ چشمک اور یکطرفہ ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی رہتی تھی۔
انہی دنوں اردو کے صاحب اسلوب شاعر جناب محبوب خزاں کراچی سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ وہ اکثر ملاقات کے لئے تشریف لاتے۔ اس دن آئے تو نہایت غمزدہ تھے۔ میں اپنے مربی اور مرشد جناب اطہر زیدی صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ ان کے ساتھ اس المناک سانحہ پر بات ہو رہی تھی کہ خزاں صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کے ساتھ پروین شاکر کی موت کی تعزیت کروں۔ تم مل گئے ہو تو دلی تعزیت قبول کرو۔ آخر بیچ میٹ بھی تو فیملی سے کم نہیں ہوتے۔

اس دن اطہر زیدی صاحب کے دفتر میں بیٹھ کر ہم نے پروین شاکر کے لئے ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جس میں ہم تینوں ہی شریک تھے۔ محبوب خزاں صاحب نے پروین کی شاعری پر بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ اس نے اپنے شعر کے ذریعے معاشرے کے استحصالی رویوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ اس کی بغاوت میں بھی حسن تھا، شعریت تھی اور صنف نازک کے ان جذبوں کی ترجمانی تھی جو بوجوہ سامنے نہیں لائے جا سکتے۔ محبوب خزاں صاحب نے ایک شعر سنایا جو پروین کے منفرد نسائی لب و لہجے کا عکاس تھا۔
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
پروین نے 1981 میں مقابلے کا امتحان دیا۔ ذرا اس کے شاعرانہ مرتبے کا تصور کریں کہ اس امتحان کے اردو کے پرچے میں خود اس کی شاعری کے بارے میں بھی سوال پوچھا گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف انتیس برس تھی۔ اگلے برس جب نتیجہ سامنے آیا تو اس میں پروین شاکر کی پوزیشن دوسری تھی اور اسے فارن سروس کے لئے چنا گیا تھا۔ ہمارا یہ بیچ سول سروس کی عصری ترتیب میں دسواں کامن کہلاتا ہے۔ میرٹ میں اس سے اگلا نمبر ایک اور لائق فائق خاتون رعنا مسعود کا تھا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ کورس کے اختتام پر پروین کو بہترین پروبیشنر اور رعنا کو بہترین آل راؤنڈر کا اعزاز ملا۔

اکیڈمی میں پروین شاکر کی وجہ سے ادبی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ وہ خود تو نجی وجوہات کی بناء پر لو پروفائل پر رہنا چاہ رہی تھی لیکن ان سرگرمیوں کے لئے اس کا نام ہی بہت تھا۔ اسی کی وجہ سے ہم نے اکیڈمی میں ایک عظیم الشان مشاعرہ برپا کیا جس کی صدارت احمد ندیم قاسمی صاحب نے کی۔ سید جاوید (شاہ جی) ہمارے بیچ میٹ اور خوبصورت شاعر ہیں۔ وہ اور میں بھاگ دوڑ کرکے شاعروں کو دعوت دینے جاتے۔ پروین کا نام سن کر کسی شاعر نے اپنا روایتی نخرہ نہیں دکھایا اور بغیر کوئی مشکل پیدا کئے مشاعرے میں شرکت کی حامی بھری۔ خیال رہے کہ شعراء کرام کو کسی قسم کا اعزازیہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ صرف لانے لے جانے کی سہولت دی گئی تھی۔ اس کے باوجود ہر شاعر نے مشاعرے میں شرکت کی اور اسے کامیاب بنایا۔ (جاری ہے)
ہم شرمندہ ہیں!! (سانحہ جڑانوالہ) ،ازقلم:حسین ثاقب
علامہ اقبال کا پاکستان کیوں نہ بن سکا؟ تحریر:حسین ثاقب









