اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف مرحوم کی سنگین غداری کیس میں اپیلوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نےسماعت کی،جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں،توفیق آصف کے وکیل حامد خان روسٹرم پر پیش ہوئے اور کہا کہ آخری سماعت کے دوران میں اپنے دلائل مکمل کرہا تھا،میں عدالت میں تحریری دلائل دینا چاہتا ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تحریری دلائل کمرہ عدالت میں پڑھیں گے یا ہم خود پڑھ لیں ؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں میں نے تحریری معروضات جمع کروا دیں ہیں، توفیق آصف کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرلئے

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے دلائل کا آغاز کردیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا؟ کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،ایسا نہیں تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آن فیلڈ ہی ہے،لاہور ہائیکورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی،لاہور ہائیکورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی؟

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے پاکستان بار کونسل کے نمائندے کی تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا، مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاونت نہیں مل رہی،لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ نے جب فل کورٹ تشکیل تجویز کی تو اگلی تاریخ کیسے دی؟فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا،عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست غیر موثر ہو چکی ہے،فیصلے کے بعد ہائیکورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی،ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے عدالت کی حیثیت پر فیصلہ نہیں دے سکتی ،خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں،وہ تو ایک فیصلے کیلئے تھی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے،پرویز مشرف نے اسی لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سلمان صفدر سے سوال کیا کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو جانتے ہیں یا نہیں؟خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آج بھی برقرار ہے, ہائیکورٹ کے حکم میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو ختم کرنے کا نہیں کہا گیا,

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی تو استدعا ہی نہیں تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا فیصلہ آچکا تھا،سارے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر نہیں،وکیل نے کہا کہ اسی وجہ سے پرویز مشرف نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے ایک روز کا نوٹس دیا ،کیا ہائیکورٹ میں ایک روز کا نوٹس دیا جاتا ہے، فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ بھجواتے ہوئے تاریخ کیسے دی جا سکتی ہے،ممکن ہے چیف جسٹس فل کورٹ سے متفق ہو یا نہ ہو، خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم ہونی چاہیے تھی، خصوصی عدالت صرف اسی کیس کیلئے بنائی گئی تھی جو فیصلہ سناتے ہی ختم ہو گئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے متفق تھے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میرا موقف ہے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ہائیکورٹ فیصلے کو تسلیم کرتے تو پھر یہ اپیل نہ کرتے، پرویز مشرف کے وکیل آج بھی اپیل پر کھڑے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ میں وفاقی حکومت نے اعتراض کیا تھا یا سیم پیج پر تھی،خصوصی عدالت کے فیصلے بارے ہائیکورٹ کو بتانا تو تھا، اگر آئین غصب ہو جائے تو پھر عدالت 1956 تک بھی جا سکتی ہے

سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نےویڈیو لنک پر دلائل دیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ پاکستان بار کے دلائل اپنانا چاہتے ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے،کہ کیا کیا ہوا،رشید رضوی نے کہا کہ مجھے جسٹس اطہر من اللہ کا احترام ہے مگر بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا،اسمبلیاں توڑیں، بارہ اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا،پرویزمشرف کےمارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، کاروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کاروائی ہو گی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھے گا، کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہدایات کی بات نہ کریں آپ خود ایک قانونی ماہر کی حیثیت سے بتائیں،کیا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو فیصلہ مانتے ہیں؟ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری نظر میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، فیصلہ نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پرویز مشرف کے وکیل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ تھینک یو،آپ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا جو راستہ چنا تھا ہم اس سے متفق ہیں،

جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتےہوئے کہا کہ کیا آپ بھی لاہور ہائیکورٹ میں سیم پیج پر تھے،کیا وفاق نے بھی لاہور ہائیکورٹ کو نہیں بتایا کہ اب خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی،کیا آپ نے لاہور ہائیکورٹ سے کہا نہیں کہ آپ آگے نہیں چل سکتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سوال کا واضح جواب نہ دے سکے.جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ رشید اے رضوی صاحب ہمیں سچ بولنا چاہیے،اگر کسی فیصلے کوختم ہونا ہے تو اسے ہونا چاہیے،جس نے مارشل لاء کو راستہ دیا،ان ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو ماضی میں ہو چکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا،کیا ساوتھ افریقہ میں سب کو سزا ہی دی گئی تھی؟ قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی،کئی بار قتل کے مجرمان بھی بچ نکلتے ہیں،وکیل آکر بتائیں نہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں ہی یہاں کیوں لگی ہیں،جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آوٹ کریں،میڈیا بھی ذمہ دار ہے ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے،بتائیں نہ کتنے صحافی مارشل لاء کے حامی کتنے خلاف تھے؟ ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیے بچوں کو بھی سکھانا چاہیے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تاریخ پھر یہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی نہیں بولتا،جب طاقتور کمزور پڑھ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رشید رضوی صاحب آپ مزید جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ تحریری طور پر معروضات جمع کرائیں سلمان صفدر آپ آج مزید کچھ کہنا چاھیں گے یا پھر اپیل تک محدود رہیں گے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ میں اس کیس میں مزید دلائل دینا چاہتا ہوں،جس قانونی نکتے پر عدالتی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر آئندہ سماعت پر دلائل دونگا،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو مزید مہلت دے دیتےہیں آپ تیاری کرکے آئیں اس دن آپ کو مزید مہلت نہیں ملے گی۔اس عدالت میں اگر کوئی نہیں آنا چاہتا تو زور زبردستی نہیں کرسکتے۔سلمان صفدر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عدالت پرویزمشرف کے اہل خانہ کو سوچنے کی مزید مہلت دے۔ وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ میں ججوں کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی عدالت کے نوٹس میں لے آیا ہوں،پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے،سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہوگئے

لاہور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف توفیق آصف کی اپیل پر وکیل حامد خان نے دلائل دیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا عدالتی معاون نے بھی لاہور ہائیکورٹ میں جاری کارروائی کی حمایت کی؟وفاق نے بھی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا،اس وقت حکومت کس کی تھی؟ وکلا نے جواب دیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب اب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے،حامد خان صاحب آپ اپنے گھر سے ہوئی غلط بات کو غلط کہنے کھڑے ہیں،حامد خان صاحب اسی لیے آپ کا قد بڑا ہے،وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں سب ایک ہی پیج پر تھے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ پیج کیا تھا؟ سلمان صفدر نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ سماعت سردیوں کی چھٹیوں کے بعد مقرر کی جائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگرہم اتنی دیر تک مہلت دیتےہیں تو اس کیس کی محرکات، اثرات پر جتنی بھی قانونی معاونت ہے اس پر تیاری کرکے آئیے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس بہت اہم ہے اس میں تشریح کا معاملہ بھی ہے،سلمان صفدر نے کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ اس میں مئوکلان سے ہدایات لے کر عدالت کی معاونت کروں،

عدالت نے کہا کہ سماعت کے دوران حامد خان، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ، سندھ بار کونسل کے وکیل رشید رضوی اور دیگر وکلا نے دلائل دیئے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جب کارروائی شروع ہوئی اسوقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی،اس وقت کی حکومت کو بھی اس عدالت نے کارروائی کی طرف مائل کیا،سنگین غداری کیس جب شروع ہوا تو اس وقت کس کی حکومت تھی؟وکیل حامد خان نے کہا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس کے باوجود انہوں نے 12 اکتوبر کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا؟چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ ایک شخص ہی حکومت چلارہا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا سب سول حکومتیں ایک ہی پیج پر تھیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت کو برملا الفاظ میں پرویز مشرف کو جواز دینے والے فیصلے کی مزمت کیوں نہیں کرنی چاہیے،حامد خان کے دلائل مکمل ہو گئے

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے ،کہامیں صرف سزا کے خلاف اپیل پر فوکس کروں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کو آئندہ سماعت پر سنیں گے،سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلا کر سزا سنائی گئی،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کا پرویز مشرف کے ورثا سے رابطہ ہوا،سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی،میری استدعا ہے پرویز مشرف کی فیملی کو وقت دیا جائے انہوں نے 4 سال یہ اپیل مقرر ہونے کا انتظار کیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سزا برقرار رہتی ہے تو پرویز مشرف کی پینشن اور مراعات پر بھی اثر پڑے گا،اس سوال پر بھی آئندہ سماعت پر معاونت کریں،ہم سزا بھی برقرار رکھیں اور سب کو پینشن اور مراعات بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہو گا،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے وفاق کا موقف تو سنا نہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کنفیوز لگ رہے ہیں انہیں شاید وہ سیم پیج مل نہیں رہا،تاریخ میں نہیں جانا چاہیے،چیف جسٹس نے کہا کہ کب تک کہیں گے تاریخ میں نہیں جانا چاہیے، ہمیں اب ان باتوں پر جانا ہے کہ کس نے کیا کیا،
آج ہم ملک کی 76 ویں سالگرہ منارہے ہیں میں آپ کو سننا چاہتا ہوں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا اسمبلیوں کو معطل کیا، ان ججز کو کیا کہیں گے جنہوں نے اس سارے عمل کو قانون جواز بنایا،بارہ اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا،کارروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہوگی تو فیئر ٹرائل کا سوال اٹھے گا، اس عدالت کے ججز نے اپنے کاز کیلئے فیصلے دیئے، کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے تھا، تین نومبر پر کاروائی ہوئی لیکن 12 اکتوبر پر نہیں، ہمیں سچ بولنا چاہیے جو حقیقت ہے،جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا،اسمبلیاں توڑیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ افریقہ اور جرمنی نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا، جزا سزا تو اللہ دے گا، کم از کم تسلیم تو کریں کیا صحیح تھا کیا غلط، اسکولوں میں بھی آئین پڑھایا جانا چاہیے،انگلینڈ میں اب موومنٹ آ رہی ہے کہ غلطیوں کو مانیں، جس کی لاٹھی اسکی بھینس والا اصول درست نہیں ہو سکتا،جنہوں نے بھی ڈکٹیٹر کے فیصلوں کو تسلیم کیا ان کا بتائیں،قانون کے توڑنے کو درست نہیں کہا جا سکتا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ مائی لارڈ نے درست کہا قومیں غلطیوں سے سیکھتی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت بھی بہت سے لوگ تھے جو مضبوط رہے، آپ کو آئندہ تاریخ کب کی چاہیے؟وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سردی کی چھٹیوں کے بعد کی کوئی تاریخ رکھ لیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ مشرف کے وکیل نے بتایا کہ انہیں مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنے کی ہدایت کی تھی،وکیل کے مطابق پرویز مشرف نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر انحصار کی ہدایت نہیں کی،پرویزمشرف کے وکیل نے چھٹیوں کے بعد تاریخ مانگی،پرویزمشرف کے وکیل اس دوران مرحوم جنرل کی فیملی سے رابطے کی کوشش کریں گیے،پرویز مشرف کے وکیل سے عدالتی سوال ہے کہ ملزم کی وفات پر کیا اپیل غیر موثر نہیں ہوئی؟کیا سزا برقرار رہنے پر مشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیں یا نہیں؟

فوج اور قوم کے درمیان خلیج پیدا کرنا ملک دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے،پرویز الہیٰ

سپریم کورٹ نے دیا پی ٹی آئی کو جھٹکا،فواد چودھری کو بولنے سے بھی روک دیا

بیانیہ پٹ گیا، عمران خان کا پول کھلنے والا ہے ،آئی ایم ایف ڈیل، انجام کیا ہو گا؟

عمران خان معافی مانگنے جج زیبا چودھری کی عدالت پہنچ گئے

پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے حوالہ سے کیس کی سماعت

پرویز مشرف کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست خارج

Shares: