پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کیس میں عدالت کا بڑا حکم

پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کیس میں عدالت کا بڑا حکم

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ،پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کیس کی سماعت ہوئی

عدالت نے پولیس کو آرزو فاطمہ کو بازیاب کراکے دارلامان بھیجنے کا حکم دے دیا ،عدالت نے آئی جی سندھ اور دیگر کو 5 نومبر کےلیے نوٹس جاری کردیئے

جسٹس امجد سہتو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم قانون کے مطابق چلیں گے عدالت جذباتی نہیں ہوتی، یہاں قانون موجود ہے کوئی کم عمری کی شادی نہیں ہوسکتی ،اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پہلے لڑکی بازیاب ہوجائے پھر میڈیکل کا حکم دے سکتے ہیں ،لڑکی کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے، لڑکی کی بازیابی کے بعد دیگر امور کا جائزہ لیا جائے گا ،

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے سندھ حکومت آرزو راجہ کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔

بلاول نے کہا کہ آرزو راجہ کیس میں اگر معزز عدالت کو شبہات ہیں تو انہیں دور کیا جائے گا، سندھ حکومت اپنے دائرہ کار میں انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کم عمری میں شادی سے متعلق قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے شواہد بتارہے ہیں کہ آرزو راجہ کم عمر ہے، اس کی شادی اور مذہب کی تبدیلی جبری طور پر کرائی گئی ہے، یہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کے کیس میں پولیس کو آرزو فاطمہ کے شوہر علی اظہر اور اس کے اہل خانہ کی گرفتار سے روک دیا۔

درخواست گزار آرزو  نے مؤقف اختیا کیا تھا کہ ‘میرا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا مگر بعد میں اسلام قبول کرلیا اور نام آرزو فاطمہ رکھا، میں نے اپنے گھر والواں کو بھی اسلام قبول کرنے کا کہا مگر انہوں نے انکار کردیا جبکہ میں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے.

آرزو  نے بتایا کہ اپنی مرضی سے علی اظہر سے پسند کی شادی کی ہے، پسند کی شادی کرنے پر میرے والد نے میرے شوہر کی پوری فیملی کے خلاف مقدمہ درج کرادیا ہے مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

 

آرزو اغوا یا قبول اسلام معمہ الجھ گیا لاہور احتجاج میں کر دی بڑی ڈیمانڈ

Comments are closed.