پٹھانوں کی "ارطغرل ” سے محبت کا انوکھا انداز،پشاوری نسوارکے بعد”ارطغرل نسوار” متعارف کروادی
لاہور:پٹھانوں کی "ارطغرل ” سے محبت کا انوکھا انداز،پشاوری نسوارکے بعد نسوارکا نیابرانڈ "ارطغرل نسوار” متعارف کروادیا،باغی ٹی وی کے مطابق ویسے تو نسوارکے حوالے سے پٹھان ہی مشہورہیں لیکن یہ نشہ اس وقت بغیرنسل،مذہب اوررنگ کے پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے، لیکن اس مخصوص نشے کواس وقت شہرت ملی جب پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ترک خلافت عثمانیہ کی تاریخ سے متعلق پاکستان میں چلنے والے ارطغرل غازی کے ڈرامے نے اپنی شہرت کے چار چاند لگادیئے
باغی ٹی وی کے مطابق ارطغرل سے محبت کے بھی پاکستانیوں کے طرف سے مختلف انداز اپنائے گئے ، تاہم پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ جو نسوارکا عادی ہے نے اپنے انداز سے ارطغرل سے اپنی محبت کا بھرم بھرا ہے، ذرائع کے مطابق جہاں پہلے ملک میں پشاوری نسوار چلتی تھی ، اب مارکیٹ میں ارطغرل نسوارکے نام کا نیا برانڈ آگیا ہے ،جس نے آتے ہی اپنے چاہنے والوں کو ترک ڈرامے سے اگر کلی نہیں تو جزوی تعارف ضرور کروا دیا ہے
اطلاعات کے مطابق نسوار کا یہ برانڈ فی الحال لاہورمیں متعارف کروایا گیا ہے اورہربنس پورہ لاہورسے ارطغرل نسوار کی فروخت کاسلسلہ جاری ہے، خیال کیا جارہا ہےکہ بہت جلد یہ ملک بھر کا ایک برانڈ بن جائے گا
دوسری طرف نسوارکے بارے میں کچھ حقائق اس طرح بھی سامنے آئے ہیں کہ
نسوار کو پشتون کلچر کہا جاتا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔حیران کن بات یہ ہے جگہ جگہ تھوکنے کی وجہ سے نسوارخوری کو غیر مہذب سمجھا جاتا ہے حالانکہ دنیا کے مہذب ترین ملکوں نے نسوا ر کو متعارف کرایا۔امریکہ اور سپین میں تمباکو پر پابندیوں کے بعد نسوار کا رجحان پیدا ہوا تھا جو آج پٹھانوں سے منسوب ہوچکا ہے۔نسوار کو مہلک قرار دیا جاتا ہے،ہونٹوں تلے اور ناک کے ذریعہ سے نسوار کھائی جاتی ہے جس کے بارے نسوار خور پٹھانوں کا کہناہے کہ نسور کھانے والے ان کے باپ دادا اسی نوے سال تک کسی مہلک بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تو وہ کیسے اسکو زہر سمجھ لیں البتہ نسوار اس وقت زہر بنتی ہے جب اس میں ملاوٹ شامل کی جاتی ہے
دوسری طرف سینیٹ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نسوار کے چرچے ہوتے رہے ہیں ، یا درہے کہ اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اراکین نے نسوار، خٹک ڈانس اور اتن ڈانس کو پاکستانی برانڈز میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی
وزارت تجارت کے حکام کا کہنا تھا کہ پشاوری چپل، سوہن حلوہ، باسمتی چاول سمیت دیگر پاکستانی مصنوعات کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے جغرافیائی قانون تیار کر لیا گیا ہے۔
کمیٹی اجلاس میں چیئرمین آئی پی او مجیب احمد خان نے جغرافیائی انڈیکیشن رجسٹریشن اینڈ پروٹیکشن بل 2019 پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جغرافیائی قانون میں 80 قومی اور علاقی مصنوعات اور سروسز کی فہرست مرتب کی ہے جس کو جغرافیائی قانون کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
معاون خصوصی سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بتایا جائے آئی پی او جغرافیائی قانون بنانے میں کیوں تاخیر ہوئی؟ انہوں نےکہا کہ نسوار کو لسٹ میں شامل کیا ہے؟ اسے بھی لسٹ میں شامل کیا جائے۔ سینیٹ میں نسوار کو برانڈز میں شامل کئے جانے کی تجویز پر کمیٹی ممبران ہنسنے لگے۔
وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ رواں مالی سال وزارت تجارت کے لیے11 ارب 8 کروڑ کا بجٹ مختص ہے، کفایت شعاری کے باعث دبئی ایکسپو 2020 میں شرکت نہ کرنے کا خدشہ تھا، اب دبئی ایکسپو میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ دبئی ایکسپو میں شرکت کے لیے 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر حکومت فراہم کرے گی۔