پرسنل اسپیس اور ہمارا معاشرہ: محمد جاوید

0
40

ہر انسان چار قسم کے حدود میں زندگی گزارتا ہے جن میں سب سے پہلے ان کی انتہائی ذاتی زندگی کا حد ہوتا ہے جو صرف دو لوگوں یعنی میاں بیوی کے حد تک محدود ہوتا ہے دوسری زندگی ایک شخص کی ذاتی زندگی ہوتی ہے جس کو انگریزی میں پرسنل اسپیس (personal space) کہتے ہیں۔ تیسری زندگی معاشرتی زندگی اور چوتھی زندگی عوامی زندگی ہوتی ہے۔
آج ہم پرسنل اسپیس کے بارے میں کچھ بات کریں گے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اس کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے دوسروں کے پرسنل اسپیس پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سوں کو اپنے حد کا علم بھی نہیں ہوتا اگر کوئی شخص اپنے حد کی حفاظت کر بھی لے تو اس کو خود غرضی کانام دیاجاتا ہے۔
پرسنل اسپس کو اگر مثالوں سے واضع کیا جائے تو اِس میں ایسے سوالات کا پوچھنا ہے جو سننے والے کو بلکل بھی پسند نہیں ہوں مثلاً آپ کی تنخواہ کتنی ہے ؟ شادی کہاں سے کی ہے ؟ اگر کنوارا ہے تو شادی کیوں نہیں کی ؟ آج کل کمزور نظر آرہے ہوں کیوں؟ اِس طرح کے بہت سارے سوالات جن کے جوابات بہت حوصلے والا شخص ہی دے سکتا ہے۔
اسی دائرے میں سوالات کے علاوہ کئی لوگ عمل کروانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔
پرسنل اسپیس کے تعین اور اس کے بارے میں بحث کرنے والے علم کو proximics کہتے ہیں اور مغرب میں بچوں کو نو عمری سے یہ علم پڑھایا جاتا ہے تا کہ وہ اپنے اور دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنیں۔
ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں یہاں بہت سارے بنیادی حقوق تلف کیے جاتے ہیں ہم ایسے بچوں کو دیکھتے ہیں جو اسکول جانے کی عمر میں کسی ورک شاپ پر یا چائے کے ڈھابے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جن کی ڈگری اور صلاحیت کو منوانے کے لیے اچھی خاصی رقم اور جان پہچان درکار ہوتی ہے اور ایسے ضعیف العمر افراد نظر آتے ہیں جن کا حق ہے کہ معاشرہ ان کو روزی، صحت اور عزت دیں دے لیکن وہ اس سے محروم ہے۔
ایسے عالم میں کسی دوسرے کی ذاتی معاملات میں خلل ڈالے بنا ایک باشعور شخص ہی زندگی بسر کرسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی بنا پر کسی کے کام آنے سے قاصر ہے تو اس کو خود غرض گردانا جاتا ہیں اور اس کو لالچ، کنجوس اور برا بھلا کہا جاتا ہے اور اگر وہ لوگوں کی باتوں میں آکر سب کو خوش کرنے لگے تو کہیں کا نہیں رہتا۔
اپنے پرسنل اسپیس کی حفاظت کر کے اور دوسروں کے پرسنل اسپیس کا احترام کر کے آپ خود کو اور دوسروں کو بھی خوش رکھ سکتے ہیں ایک بچے کا مثال ہی لیں لے جو آپ سے تھوڑے فاصلے پر ہنستے مسکراتے کھیل رہا ہو آپ اس کو قریب آنے کا کہہ رہے ہیں لیکن وہ نہیں مان رہا اور جب اس کو زبردستی اُٹھا کے لاتے ہیں تو یا تو وہ رونے لگے گا يا اس کے چہرے پر بیزاری آپ دیکھیں گے کچھ بھی نہ کرے تو وہ واپس جانے کی کوشش ضرور کرے گا یہ سب آپ کسی بالغ انسان کے ساتھ نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ آپ کو پہلے ہی منع کردیگا اور آپ اس کو اُٹھا کے نہیں لا سکتے۔
انسانی زندگی میں بہت سی چیزیں سمجھنے کی ہوتی ہیں اور ہمیں سمجھنا چاہئے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لئے بھی دیا گیا ہے کہ انسان میں سمجھنے کی صلاحیت ہے اور اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
@I_MJawed

Leave a reply