‏پیسے کی دوڑ . تحریر : ماریہ بلوچ

0
54

آج کے دور کو بہت سے نام دیے جاتے ہیں گلوبل ویلیج سے ٹیکنالوجی سے لیس تیز بھاگتی دوڑتی دنیا ہمارے اس دور میں ہر شخص مصروف ہر شخص بھاگ رہا ہے اک ریس میں اک دوڑ میں۔ پیسہ بنانے کی دوڑ میں کامیاب ہونے کی دوڑ میں ۔۔ پیسہ زندگی کی ضرورت نہیں رہا بلکہ زندگی کا مقصد بن چکا ہے ۔ کوئ بھی اپنی انکم سے خوش نہیں ہر کسی کو مزید سے مزید کی تمنا ہے۔ خواہ اسکی خاطر اپنا راتوں کا آرام اپنے دن کا سکون اپنا کھانا پینا سب قربان کرنا پڑے کرنے کو تیار ہیں.

پیدا ہوتے بچے کے مستقبل کے بارے میں یہ سوچا جاتا ہے مستقبل میں اس بچے کو کس پیشے سے منسلک کرنا ہے۔ کونسا پیشہ زیادہ کامیابی سے زیادہ کمانے کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہے سکول سے کالج یونیورسٹی تک اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اس ادارے سے پڑھایئں جسکی ڈگری پروفیشنل لائف میں ترجیحی بنیادوں پر تسلیم کی جائے جس سے ایک اچھی بھاری تنخواہ کی نوکری مل سکے ۔۔
کچھ عرصہ پہلے تک پیسہ اتنا ضروری نہیں تھا جتنا اب ہے۔ہم اپنے رشتے اپنی دوستیاں حتی کہ اپنی اولاد تک کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔۔
ہم زندہ رہنے کے لیے نہیں کماتے بلکہ کمانے کے کیے زندہ رہتے ہیں ۔ دن بدن ہماری ضروریات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے جسکے لیے مزید محنت مزید پیسہ چاہیئے۔

پیسے کی اس دوڑ اور اس کمائ کی لت نے نوجوان نسل سے وہ کام بھی کروائے ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک قبیح سمجھے جاتے تھے۔ ٹک ٹاک سنیک ویڈیوز بگو لایئو جیسی ایپس نے اس دوڑ میں آکر نوجوانوں کو ایک الگ ہی نشے سے متعارف کروا دیا ہے ۔ نوجوان نسل بنا کسی نقصان کے بارے میں سوچے دھڑا دھڑ ان ایپس سے منسلک ہوتے جا رہے ہیں اور اس سے ہماری مشرقی اقدار بہت بری طرح پامال ہوئ ہیں۔دوسرے الفاظ میں اپنی اقدار کا سودا چند ہزار یا لاکھ میں کیا گیا ۔

ڈیجیٹل کرنسی کے نام پر چلنے والی کریپٹو کرنسی نے اس ریس میں مزید نوجوان اس آگ میں دھکیل دیے ہیں۔ جوے اور سود کو ایک شوگر کوٹڈ گولیبکی طرح پیش کیا جا رہا ہے جسکو نگلنے کے لے ہزاروں لاکھوں لوگ بیتاب بیٹھے ہیں۔
بچوں کا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد شخصیت یا معاشرے کی تعمیر نہیں بلکہ پیسہ و شہرت رہ گیا ہے ۔ کیونکہ تعلیمی اداروں کا مقصد بھی پیسہ کمانا ہے طلبا کی ذہنی و اخلاقی تربیت نہیں۔۔جتنا بڑا تعلیمی ادارہ ہو گا اتنے ہے بے حس لوگ معاشرے میں دے رہا ہو گا ان طلبا کی ذہنی گروتھ بھی اسی نہج پر کی جاتی ہے کہ کس طرح وہ مستقبل میں اپنے فانینشل سٹیٹس مزید بڑھا سکیں گے۔ یہی وجہ ہے ہم دن بدن پیسے کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور اخلاقیات میں گرا ہوا معاشرہ بنا رہے ہیں اور یہی معاشرہ یہی سوچ اور یہی اقدار اپنی آنےوالی نسلوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

ہم ایک بے حس معاشرہ تعمیر کر رہے ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جسکا دنیا میں آنے کا مقصد ہی فقط پیسہ کمانا ہے۔ جہاں نوجوان نسل کو اس بات کی ترغیب دلائ جاتی ہے کی اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو آپکا قصور نہیں اگر آپ غریب مر جایئں تو آپکا قصور ہے۔ اور یہی مقصد زندگی بنا دیا گیا جو ہم آج دیں گے کل اسی حال میں معاشرے کو دیکھیں گے ۔۔۔فیصلہ آج بھی ہمارا ہے ہمارے آنے والی نسلوں کا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے.

Twitter handle @ShezM__

Leave a reply