فوٹوشاپ بڑے بڑے قد کے ڈھانچے!!! — ڈاکٹرحفیظ الحسن

0
38

انٹرنیٹ پر جابجا موجودہ انسانوں سے کئی گنا بڑے انسانی ڈھانچوں کی فوٹوشاپ اور فیک تصاویر ہیں جنکا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔۔پرانے زمانے میں انسانوں کی اوسط قد موجود انسانوں سے کم تھی۔ انسانی قد میں اوسط اضافہ جدید سائنسی طریقوں سے خوراک کی کاشت اور حصول کے ذریعے ممکن ہوا۔فی زمانہ خوراک کی فراوانی سے انسانی نشونما میں اضافہ ہوا۔

آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اوسط مرد کی قد دنیا کے پسماندہ ممالک سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک میں اوسط مرد کی قد 1.82 میٹر ہے جبکہ پاکستان میں اوسط مرد کی قد 1.67 میٹر ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک جیسے کہ عراق، مصر، سعودی عرب وغیرہ میں اوسط قد 1.73 میٹر کے قریب ہے۔

تاریخ میں انسانی قد میں اضافہ انیسویں اور بیسویں صدی میں صنعتی ترقی کے بعد ممکن ہوا جب کاشتکاری کے بہتر طریقے متعارف ہوئے، صنعتی طور پر کھاد بننا شروع ہوئی اور جینیاتی چناؤ کے باعث فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوا۔

کھدائی سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں، ہڈیوں اور فوسلز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں آج سے دس ہزار سال پہلے یعنی آٹھویں صدی قبلِ۔مسیح سے لیکر اٹھارویں اور انیسویں صدی تک انسانوں کی اوسط قد 1.65 میٹر سے بھی کم تھی۔

اندازہ کیجئے ایک شخص 30 میٹر کی قد کا ہو؟ اب تک کا ملنے والا سب سے بڑا ڈائناسور Sauroposeidon قسم کہلاتا ہے جو لگ بھگ 18 میٹر قد کے تھے۔ تو اگر ڈائناسورز کی قد سے دوگنے قد یعنی 30 میٹر کے انسان ہوں اور دو ٹانگوں پر چلتے ہوں تو اُنکی ہڈیاں کیا لوہے کی ہونگی کہ اتنا وزن اُٹھا سکیں اور اگر بالفرض وہ نیچے گرتے تو گویا 10 منزلہ عمارت جتنی اونچائی سے نیچے زمین پر اُنکا سر ٹکراتا تو کھوپڑی نہ اُڑ جاتی؟ یا اُنکی ہڈیاں اتنی مضبوط تھیں کہ کچھ نہ ہوتا کیونکہ وہ دودھ پیتے ہونگے اُن بھینسوں کا جو شاید اُن سے بھی بڑی ہوں؟

لہذا ایسی فوٹوشاپ تصاویر بنا کر لگانے والے جانے کیا خدمت انجام دیتے ہیں؟ اگر آپ نے قدیم انسانوں اور انسانی تاریخ کے متعلق جاننا ہے تو مستند سائنسی جرائد میں ہزاروں مقالے موجود ہیں۔ آئے روز نئی سے نئی تحقیق ہو رہی ہے جسکے نتائج انٹرنیٹ پر عام پڑے ہیں۔ جائیں جا کر خود تردد کریں اور جانیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔

آج کے دور میں غلط خبروں اور غلط باتوں کو بنا تحقیق کے سچ سمجھنا ایک معمول کی بات ہے جو بے حد خطرناک ہے۔ اس سے اصل علم کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ذہن جمود کا شکار رہتے ہیں۔۔اس روش کو بدلیں۔ سنجیدہ ہو کر سائنس سیکھیں۔

Leave a reply