پی آئی اے ائیر کرافٹس کو ملائیشیا میں روکا گیا اور اس کے بعد 14 گھنٹوں کے بات چیت کے بعد مسافروں کو دو مختلف جہازوں میں پاکستان واپس پہنچایا گیا سینئیر اینکر پرسن اور صحافی مبشر لقمان اس کے پیچھے کی کہانی سامنے لے آئے-
باغی ٹی وی : اپنی آفیشل یوٹیوب چینل پر ویڈیو میں مبشر لقمان نے اس حقیقت سے نردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ دونوں ائیر کرافٹس کا کال سئان ایلفا پلپا ایک کا بی ایم جی یعنی( بریوو مائی گالو) اور دوسرے کا بریوو مائی ایچ یعنی (بریوو مائی کوٹیل) تھے ان دونوں میں ای ایف بی فلائٹ بیگ نہیں تھا اور پہلے دن سے نہیں تھا-
سینئیر اینکر پرسن نے بتایا کہ ای ایف بی ایک ماڈرن کمپیو ٹر ہوتا ہے جو جہاز کے اندر ہوتا ہے اور جہاز کو ایک پیپر لیس کونفریس بنانے میں مدد دیتا ہے-اور ان بے وقوفیوں کی وجہ سے پی آئی اے کو آج بھی جیسپئین کمپنی کو پچاس ہزار یورو ہر مہینے دینا پڑتا ہے-
منشر لقمان نے بتایا کہ پی ائی اے نے پانچ سو آئی پیڈز تو صرف اپنے پائلٹس کے لئے خریدے اور پھر فرسٹ کلاس کے لئے الگ خریدے تھے ایک ایپ ہے او پی ٹی یعنی آن بورڈ پرفارمنس ٹول وہ انہوں نے بغیر ای ایس پی خریدی اب یہ ساری حرکتیں کون کرارہا ہے پی آئی اے کے اندر اور اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے-
انہوں نے کہا کہ ایک تو جوائنٹ انویسٹی گیشن یعنی جے آئی ٹی ٹیم بنانی پڑے گی جو مس مینیجمنٹ ، کرپشن اور بری گورننس کو کنٹرول کرے- نہ صرف پی آئی اے میں بلکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے-
انہوں نے انکشاف کیا کہ بی 777 کے اندر بڑے فالٹ لائنز ہیں یعنی اس وقت کی جو پی آئی اے کی مینجمنٹ ہے جس کی لوگ تعریفیں کرتے نہیں کرتے انہوں نے اس کے اندر بہت زیادہ بلنڈر کئے ہیں یا پھر کرپشن ہے اس کے علاوہ تیسری چیز کوئی نہیں ہے جو میری سمجھ میں آتی ہے-
مبشر لقمان نے کہا کہ جے آئی ٹی میں ایسے پروفیشنلز ہونے چاہیئں جن کو ایوی ایشن کی سمجھ ہو اور جن کو بے وقوف نہ بنا سکیں کیونکہ یہ بہت ٹیکنیکل چیز ہے اور اس کی انویسٹی گیسن اس لیول کی ہونی چاہیئے کیونکہ نان ایوی ایشن لوگوں کو ٹیکنیکلیٹیز کا ہی نہیں پتہ چلتا یہی سول ایوی ایشن ہماری ایوی ایشن منسٹری ، سیکرٹری ایوی ایسشن اور منسٹر ایوی ایشن کو بدھو بناتے رہتے ہیں انہی قسم کی وجوہات کی وجہ سے-
مبشر لقمان نے بتایا کہ جب پاکستان نے 777 لیز کئے تھے تو یہ کیس سٹڈی ہی نہیں ہوئی تھی کہ یہ پاکستان کو پاکستان کی لوکل فلائٹ کو سوٹ ایبل ہیں یا نہیں ان میں دو جہاز ایسے تھے جو پی آئی نے لئے جن میں ریسٹ ایریاز تھے کریو کے لئے اب یہ بہت ہی امپورٹنٹ بات ہے کہ اگر لاہور سے کینیڈا فلائی کر کے جا رہے ہیں تو دو کریو کے سیٹس ساتھ جاتے ہیں کیونکہ حدود ہیں ایک کریو نے جہاز کتنی دیر ارانا ہے پہلا کریو جو ریسٹ کر رہا ہوتا ہے وہ اس کی جگہ ریپلیس کرتا ہے اس طرح لمبے روٹس کی فلائٹس اس طرح آپریٹ کرتی ہیں-
سینئیر اینکر پرسن نے کہا کہ اگر آپ نے سات جہاز لئے ان میں صرفد و ہیں جن میں کریو کا ریسٹ ایریا ہے تو یہ بہت ہی سیریز مسئلہ ہے کہ آپ کیسے ان جہازوں کو بار بار الگ الگ شیڈول کریں گے کیسے ان کو آپریٹ کرائیں اگر ایک جہاز مینٹیننس کے لئے گیا ہے تو ائیر لائنز کے لئے پارابلمز بڑھ گئیں ایسے ائیر کرافٹس ہیں جن میں سی پی ڈی ایل سی یعنی کنٹرول آف پائلٹ ڈیٹا لنک کمیونیکیشن نہ ہو تو یورپ کے اوپر نہیں فلائی کر سکتے-
تو آپ نے جہاز تو لے لئے اور کہنے کو 777 لے لئے عام آدمی کو تو نہیں پتہ لیکن ایکچوئلی وہ لاجسٹکلی ریکوائرمنٹ پورا ہی نہیں کر رہے پھر انہوں نے اپنی بے وقوفیاں چھپانے کئے اپنی کرپشن چھپانے کے لئے ان جہازوں کو لوکل فلائی کرنا شروع کر دیا ملکی سطح پر-یعنی ہر پونے پونے گھنٹے کے اندر اس کو جیٹس سائیکلز پڑ رہی ہیں یہ بہت ہی سیریز کرمینل مسئلہ ہے کہ آپ اس کی مینٹیننس اس کی انجن مینٹیننس پر کتنے ملین ڈالرز خرچ کر رہے ہیں کیونکہ یہ ہیں لانگ روٹس ائیر کرافٹس ان کو آپ شاڑٹ روٹس پر چلا رہے ہیں آپ نے ان کو جیٹس سائیکلز ڈالنا شروع کر دیئے اس کو بھی تو انویسٹی گیٹ ہونا چاہیئے-
انہوں نے بتایا کہ یہ جو لیز ایگریمینٹ ہوا تھا یہ ایسےلگتا ہے یہ ایسے یزنگ ایگریمینٹ بنوائے گئے کہ آپریٹرز نقصان میں رہے اور لیزنگ کمپنی ہر حال میں فائدے میں رہے-