پلاسٹک سے ہیرے بنائیں!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

کیا پلاسٹک سے ہیرے بن سکتے ہیں؟ وہ بھی اصلی ہیرے۔ اُس پلاسٹک سے جو عام پانی یا کولڈ ڈرنک کی بوتلوں میں استعمال ہوتا ہے، جسکا ایک مشکل سا نام ہے مگر اسکا مخفف آسان ہے پی ای ٹی یعنی PET ، مگر ہیرے کیسے ؟

اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ پلاسٹک دراصل ہوتا کیا ہے ۔ پلاسٹک عمومی طور پر تین عناصر کے ایٹموں سے مل کر بنتا ہے۔۔کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن ۔ ان ایٹموں سے بنے پیچیدہ اور لمبے لمبے مالیکول ایک خاص ترتیب میں پلاسٹک میں زنجیروں کی طرح ایک دوسرے سے آپس میں جکڑے ہوتے ہیں (محض سمجھانے کے لیے)۔ مختلف طرح کے مالیکول اور مختلف قسم کی ترتیب کے کمبینیشن بنائیں ان میں کچھ اور عناصر ڈالیں اور طرح طرح کی خاصیت کے پلاسٹک بنائیں۔ پلاسٹک کی تاریخ دلچسپ ہے مگر اس پر بات پھر کبھی۔

اب آتے ہیں اس پر کہ ہیرے کیا ہوتے ہیں۔ ہیرے دراصل کاربن کی ہی شکل ہوتے ہیں جس میں کاربن کے ایٹم ایک خاص ترتیب میں آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ کاربن کے ایٹم مختلف طرح سے جڑیں تو انکی ظاہری اور کیمیائی خاصیتیں بدل جاتی ہیں۔ اب تک کاربن کے ایٹم 8 مختلف طرح کی ترتیبوں میں قدرت اور لیبارٹریوں میں جڑے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ہر اس طرح کی ترتیب سے پیدا ہونے والی کاربن کی صورت کو ایلوٹروپ کہتے ہیں۔ سو کاربن کا عنصر ہیرے یا ڈائمنڈ کی شکل میں، گرافائٹ کی طرح ، عام کوئلے جیسا(اس میں کاربن ایٹم بے ترتیب ہوتے ہیں)، نینو ٹیوب کیطرح وغیرہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔

سو اب اگر ہم کاربن کے ایٹموں کو لیبارٹری میں ایسے ترتیب دیں جیسے قدرت میں یہ ہیرے کے اندر موجود ہوتے ہیں تو ہم نقلی ہیرے بنا سکتے ہیں۔ قدرت میں پائے جانے والے ہیرے دراصل زمین کے اندر موجود کاربن یا کوئلے پر صدیوں پڑنے والے شدید دباؤ اور درجہ حرارت سے بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں اسی طرح سے نقلی ہیرے بنائے جاتے ہیں۔ لیبارٹریوں میں ایک خاص عمل کے تحت کاربن کے ایٹموں کو بے حد درجہ حرارت (1400 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ) اور دباؤ (5 گیگا پاسکل یعنی زمین پر ہوا کے دباؤ سے تقریباً 49 ہزار گنا زیادہ) کے زیرِ اثر لا کر ہیروں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ گویا ہیرے بنانے کے لئے تین اہم چیزیں درکار ہیں۔ کاربن، حرارت اور دباؤ ۔

اب پلاسٹک میں کاربن تو موجود ہے مگر آکسیجن اور ہائڈروجن سے جڑی ہوئی۔ تو اسے کیسے شدید درجہ حرارت اور شدید دباؤ کے زیر اثر لایا جائے؟ اسکا جواب ہے انتہائی طاقتور لیزر۔ حال ہی میں کیے گئے تجربات جب پلاسٹک کے ٹکڑے پر جرمنی کے روسٹک یونیورسٹی کے محققین نے طاقتور اور انتہائی کم دورانیے کی لیزر پلسس پھینکیں تو ہوا کچھ یوں کہ پلاسٹک کے اُن حصوں پر شدید حرارت اور دباؤ پڑا ۔ اس سے ان میں موجود مالیکیولز کے اندر کاربن آکسیجن اور ہائڈروجن ایٹموں سے الگ ہوئے اور پھر ننھے ننھے ہیروں میں تبدیل ہوتے گئے۔ یہ ہیرے سائز میں نینومیٹر میں تھے یعنی ہائڈروجن ایٹم کے قطر سے تقریباً 20 گنا بڑے۔

اس تحقیق سے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ نظامِ شمسی کے سیارے نیپچون اور یورینس پر ہیروں کی بارش کیسے ہوتی ہے۔کیونکہ وہاں بھی ہائڈروجن، آکسیجن اور کاربن کے کئی طرح کے کیمیائی مرکبات اُنکی فضا میں موجود ہیں اور وہاں بھی سیاروں کے اندر شدید درجہ حرارت اور دباؤ کاربن کو ہیروں میں بدل سکتا ہے۔

اوپر کے بیان کردہ تجربات سے بننے والے یہ ننھے منے ہیرے اس عمل سے کیسے نکالے جائیں یہ ابھی معلوم نہیں ۔ مگر نینو ڈائمنڈ کے جدید ٹیکنالوجی میں کئی مصرف ہیں جیسا کہ کوانٹم کمپیوٹر اور کوانٹم کمیونکیشن میں استعمال ہونے والے آلات کی تیاری میں یا نینو بیٹریوں میں۔

فطرت کے اُصولوں کوجاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ ہر جگہ خود جا کر یا دیدے پھاڑ کر دیکھیں۔ اگر آپ لیبارٹریوں میں بگ بینگ کے حالات پیدا کر سکتے ہیں یا سورج میں ہونے والے کروڑوں میل دور کے فیوژن کے عمل کو زمین پر پیدا کر سکتے ہیں تو آپ فطرت کو یہیں زمین پر بھی جان سکتے ہیں۔ ایک گیند دیوار پر مارنے پر جب واپس آتی ہے تو یہی اایکشن ری ایکشن کا اُصول کائنات کے کسی بھی کونے میں لاگو ہو گا۔ چاند پر بھی، سورج پر بھی، سیاروں پر بھی اور ہم سے لاکھوں نوری سال دور کسی ستارے پر بھی۔

Reference:

Z. He et al. Diamond formation kinetics in shock-compressed C-H-O samples recorded by small-angle X-ray scattering and X-ray diffraction. Science Advances. Published online September 2, 2022. doi: 10.1126/sciadv.abo0617.

Comments are closed.