@mnasirbuttt
روزانہ کی بنیاد پر احتجاج, ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا ہے, مظاہرین سخت نعرے بازی اور دھرنوں کی حکمت عملی سے جب میڈیا اور حکام بالا کی توجہ اپنی طرف مبزول کروانے میں ناکام ہو جائیں تو پرتشدد کاروائیوں کا آغاز کیا جاتا ہے, احتجاجی دھرنوں کی تاریخ اٹھا لیں تو یہ چیز عام ہے کہ جب تک پرتشدد حالات پیدا نہ کیے جائیں مجال ہے اخباری سرخیوں یا ٹی وی ہیڈلائینز یا یوں کہیں سوشل میڈیا کی نیوز فیڈ میں آپ کو جگہ مل سکے, جوں ہی مار دھاڑ کا سلسلہ چل پڑتا ہے تو بڑے نام آپ کے نام کی ٹویٹ بھی داغتے ہیں اور بڑے چینلز آپ کو ہیڈلائن کا حصہ بھی بنانے پر مجبور ہوتے ہیں, یہ ہی ہوا کل جب این ایل ای امتحان کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ملک بھر سے پاکستان میڈیکل کمیشن کی بلڈنگ کے سامنے پہنچے, پہلے تو کئی گھنٹے نعرے بازی اور تقاریر کا سلسلہ جاری رہا لیکن جب کام نہ بنا تو ڈاکٹرز کی جانب روڑ بلاک کرکے دھرنا دے دیا گیا, اس ساری صورتحال میں اب تک ایس پی صدر نوشیروان علی کی سربراہی میں خاموش تماشائی کا ہی کردار ادا کرتی رہی لیکن جب مشتعل ڈاکٹرز کی جانب سے پی ایم سی کی بلڈنگ میں داخل ہونے کی مبینہ کوشش کی گئی تو پرسکون انداز میں کھڑی اسلام آباد پولیس حرکت میں آگئی اور پھر کیا تھا میدان جنگ کے مناظر تھے, پولیس اہلکاروں کی کوشش تھی کہ کوئی ڈاکٹر پاکستان میڈیکل کمیشن کی عمارت میں نہ گھس سکے تو ڈاکٹرز کے سر پر پی ایم سی کی بلڈنگ میں فتح کا جھنڈا گاڑنے کا جنون سوار تھا, اسی کشمکش میں ڈاکٹرز اور پولیس گھتم گتھا ہوئی, پولیس نے لاٹھی چارج کیا تو ڈاکٹرز نے بھی بے دریغ اینٹیں برسائیں, اس دوران کئی ڈاکٹر کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئی, آگ کو ہوا دینے کا لمحہ تب آئے جب ینگ ڈاکٹرز کے ایک رہنماء کی جانب سے بیچ بچاؤ کروانے والے ایس پی صدر نوشیروان پر حملہ کیا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس دوران پولیس افسر کی عینک ٹوٹ گئی اور وردی کو پھاڑ دیا گیا جبکہ ایس پی پولیس زخمی ہوگئے تاہم جوابی کاروائی میں اہلکاروں کی جانب سے ڈاکٹرز کی بھی درگت بنائی گئی, اس ساری صورتحال میں ایس پی پولیس اور ڈاکٹرز کی ہاتھا پائی کی ویڈیو نے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مین سٹریم میڈیا میں بھی اپنی جگہ بنائی اور افسوسناک واقعہ پر حکام بالا میں بھی غم و غصہ پایا جاتا رہا تاہم معاملات کو نمٹانے کی غرض سے ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات, ایڈیشل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد رانا وقاص, متعلقہ اے سی, قائمقام ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد ملک جمیل ظفر بھی موقع پر پہنچ گئے تاہم ڈاکٹرز کی جانب سے دو مطالبات سامنے رکھ دئیے گئے, پہلا مطالبہ گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا تھا جبکہ دوسرے مطالبے میں نائب صدر پی ایم سی کا استعفی مانگا گیا, شام تک وزارت صحت حکام کی موجودگی میں مزاکرات ہوئے اور بالاآخر گرفتار ڈاکٹرز کو رہا کر دیا گیا لیکن ڈاکٹرز نے اس واقعہ کے خلاف ملک بھر کے ہسپتالوں میں او پی ڈی سروس بند کرنے کا اعلان کر دیا اور مریضوں کی خواری کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اب ہسپتالوں میں سماں یہ ہے کہ بیماری ساتھ لیے جیب میں چند روپے ڈال کر علاج کی غرض سے ہسپتالوں کا رخ کرنے والے غریب مریض گیٹ پر لگے بڑے بڑے تالے اور ینگ ڈاکٹرز کے نعرے سنتے ہوئے مایوس ہوکر واپسی کا رخ اختیار کر رہے ہیں, اب سوال بس اتنا ہے کہ مانا کہ مطالبات جائز ہونگے, مانا کہ پولیس نے سختی کی ہوگی لیکن اس ساری صورتحال میں اس غریب مریض کا قصور کیا ہے جو ٹیکس دیکر بھی حکومت کی فراہم کردہ بنیادی صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہوگیا؟؟؟