اردو کی ممتاز اور معرکتہ آراء شاعرہ ادا جعفری

0
138

اردو کی ممتاز اور معرکتہ آراء شاعرہ ادا جعفری

ادا جعفری اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ آپ کی پیدائش 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ادبی انعام ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ جو رہی سو بے خبری رہی کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغا امتیاز سے نوازا۔ وہ کراچی میں رہائش تھیں ۔

ممتاز شاعرہ ادا جعفری اپنے رنگ‘ اپنے اسلوب میں نہ صرف منفرد بلکہ تاریخ ادب میں نسائی لہجے کی غزل کہنے میں انتہائی مقبول اور معتبر قرار پائیں۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ اپنے شوہر نور الحسن جعفری جو سابق بیوروکریٹ تھے اور بعد میں انجمن ترقی اُردو پاکستان کے صدر بھی رہے‘ ان سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ادا جعفری اور نور الحسن جعفری کو اکثر ساتھ ہی دیکھا۔ جعفری صاحب کے انتقال کے بعد ادا جعفری نے دنیا سے ناطہ توڑ لیا اور مکمل طور پر گوشہ نشین ہو گئیں۔

کوئی پندرہ سولہ برس کا عرصہ گزرا ادا جعفری نہ کسی مشاعرے میں شریک ہوئیں اور نہ کسی ادبی محفل میں اور نہ ان کا کلام کسی ادبی رسالے کی زینت بنا۔ ادا جعفری نے اُردو غزل اور نظم میں جو مقبولیت حاصل کی وہ کسی اور شاعرہ کے حصے میں اس طرح نہیں آئی جس طرح ادا جعفری کے حصے میں آئی۔ ہم نے اپنی نوجوانی کے دور میں صہبا لکھنوی مرحوم کی سرپرستی میں ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس زمانے میں ادبی جریدہ ماہنامہ افکار شائع ہوا کرتا تھا۔ ادا جعفری اس ادبی جریدے میں تازہ ترین تخلیقات کے ساتھ شائع ہوا کرتی تھیں۔ جب بھی ادا جعفری کوئی نئی غزل یا نظم لکھتیں تو افکار میں شائع ہوتیں۔ وہ جب کبھی افکار کے دفتر آتیں تو صہبا لکھنوی ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے اور بتاتے کہ ادا بہن ادبی جرائد کو آج کل کتنے مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔

وہ اس سلسلے میں اشتاری معاونت بھی کرتیں اور صہبا لکھنوی کا حوصلہ بڑھاتیں۔ نور الحسن جعفری کے انتقال کے بعد ادا جعفری کی جو نظمیں شائع ہوئیں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں ان نظموں اور غزلوں میں ایک تنہائی کا احساس اور اپنے شریک سفر سے بچھڑ جانے کا انداز اشعار میں جس ڈھنگ سے آتا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ادا جعفری نے دو چار برس یہ سلسلہ جاری رکھا اور پھر انہوں نے چھپنے سے گریز کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ ادا جعفری کی صدارت میں ہم نے اپنی نوجوانی میں کئی مشاعرے پڑھے۔ وہ مشاعرے کی شاعرہ نہیں تھیں لیکن انہیں مشاعروں میں پوری توجہ کے ساتھ سنا جاتاتھا۔ وہ اپنے اشعار پر مشاعرے لوٹ لیا کرتی تھیں۔ 1987ء میں پی ٹی وی کا ایک یادگار مشاعرہ تھا جس میں ہم نے بحیثیت شاعر پہلی مرتبہ پی ٹی وی مشاعرہ میں شرکت کی۔ اس مشاعرے کی صدارت محترمہ ادا جعفری کر رہی تھیں جبکہ نظامت کے فرائض حمایت علی شاعر نے انجام دئیے تھے۔

وہ مشاعرہ اس قدر اہم تھا جس میں مقبول شعراء شریک ہوئے۔ پروین شاکر‘ جمیل الدین عالی بھی محفل میں شریک تھے۔ ادا جعفری نے اس مشاعرے میں کئی خوبصورت غزلیں سنائیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ادا جعفری نے اس وقت پروین شاکر کو بھی ان کی غزل پر خاصی داد دی تھی۔ اور ہم پر اپنا دست شفقت رکھا تھا۔ ادا جعفری شاعرہ تو بہت بڑی تھیں لیکن انسان بھی بہت بڑی تھیں۔ جب بھی اپنے چھوٹوں سے شعر سنتیں‘ اچھے اشعار پر ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ ان جیسی قد آور شاعرہ کے سامنے ہم جیسے نوجوانوں کی کیا حیثیت تھی۔ لیکن ان کا مشفقانہ طرز عمل ہمارے لئے باعث تقویت رہا۔

ایک نوجوان شاعر نے انہیں اپنے ولیمے کا کارڈ دیا تو کچھ ہی دیر کے بعد جس محفل میں انہیں کارڈ دیا گیا تھا انہوں نے بڑی اپنائیت سے کہاکہ ہم ولیمے کے روز بہت مصروف ہیں اگر آپ ہمیں اپنی شادی میں مدعو کر لیں تو آپ کا کیا خیال ہے۔ ادا جعفری کی اس بات پر نوجوان شاعر نے کہاکہ یہ تو میرے لئے‘ اہل خانہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ آپ شادی کی تقریب میں شریک ہوں۔ اور پھر ادا جعفری شادی کی تقریب میں شریک ہوئیں اور خاصی دیر شریک رہنے کے بعد دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوئیں۔

ادا جعفری کی غزل میں ایک ایسا لہجہ چھپا ہوا تھا جس کی ہمارے عہد کی شاعرات نے نہ صرف تقلید کی بلکہ نسائی حسیت بھی ان کے شعروں میں نمایاں ہونے لگی۔ ادا جعفری کی غزل ہمارے عہد کی ایسی غزل ہے جس میں عورت کا بھرپور اظہار اور احساس کے ساتھ خیال کی سطح بلند ہوتی ہے اور اس طرح دل کو چھوتی ہے کہ پڑھنے والے اس خیال کو اپنے قریب تر سمجھنے لگتا ہے۔ غزل میں جو رچائو اور چاشنی ہے وہ ادا جعفری کی غزل کا خاصہ ہے۔ ادا جعفری کی وہ غزل جو بہت زیادہ مقبول ہوئی:

ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے

یہ غزل استاد امانت علی کی آواز میں گائے جانے سے تو مقبول ہوئی لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ استاد امانت علی کی گائیکی میں ادا جعفری کی خوبصورت غزل ان کے ریکارڈ میں شامل ہو گئی۔

ادا جعفری کی نثر اس قدر منفرد نثر ہے ان کی سوانح حیات ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس سطح کی نثر نگار تھیں۔ خود نوشت سوانح حیات میں ادا جعفری نے واقعات کے تانے بانے جس انداز سے جوڑے ہیں اور وہ واقعات جو ان کی ابتدائی زندگی میں آئے اور ان کی شاعرہ بننے میں کیا محرکات تھے وہ واقعات حیران کن بھی ہیں اور ادا جعفری کے جینئس ہونے کی بھی نشاندہی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اُردو کی ایک اہم‘ ممتاز اور معرکتہ الآرا شاعرہ قرار پائیں۔ وہ اپنے شوہر نور الحسن جعفری کے انجمن ترقی اُردو سے وابستہ ہونے کے باعث خود بھی انجمن سے جڑی رہیں۔ اُردو کے کلاسک شعراء کا انتخاب ’’غزل نما‘‘ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ آج ادا جعفری ہم میں نہیں ہیں لیکن ادا جعفری کی شاعری سے کئی نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی۔

#تصانیف

میں ساز ڈھونڈتی رہی 1950(شاعری)
شہر درد 1967 (شاعری)1968ء میں آدم جی ادبی انعام ملا۔
غزالاں تم توواقف ہو 1974 (شاعری)
ساز سخن بہانہ ہے 1982 (شاعری) ہائیکو
حرف شناسائی (شاعری)
موسم موسم (کلیات2002ء)
جو رہی سو بے خبری رہی 1995 ( خود نوشت)

منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگ وفا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید

جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید

تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے
اور وہی وقت دعا تھا شاید

خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

دل کا جو رنگ ہے یہ رنگ اداؔ
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری ٹیس آزمانے کو
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو

یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو

سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے
اک دیا رہ گیا جلانے کو

جلنے والے تو جل بجھے آخر
کون دیتا خبر زمانے کو

کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے
ان کہی بات منہ پہ لانے کو

کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے
لوگ ترسے ہیں اک بہانے کو

ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں
دل کی ویرانیاں جتانے کو

حسرتوں کی پناہ گاہوں میں
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو

آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ
یہ کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے

لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے

Leave a reply