پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف گیت نگار خواجہ پرویز کی آج گیارہویں برسی منائی جا رہی ہے انہوں نے اپنے چالیس سالہ کیرئیر میں اردو اور پنجابی فلموں کے ہزاروں گیت لکھے۔ان کا لکھا ہر گیت سپر ہٹ ہوا ۔ان کا اصل نام غلام محی الدین تھا خواجہ پرویز تخلص تھا ۔1955میں ہدایتکار ولی کے اسسٹنٹ مقرر ہوئے کچھ عرصے کے بعد یہ ادارہ ہی بند ہو گیا جس کے بعد گیت نگاری کی طرف رجحان ہونے کے باعث نغمہ نگار سیف کے اسسٹنٹ اور شاگرد بن گئے ۔خواجہ پرویز نے گیت نگاری کا سلسلہ دلجیت مرزا کی فلم رواج سے کیا اس میں ایک گیت جس کے بول تھے کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا سپر ہٹ ہو گیا ۔اس کے بعد خواجہ پرویز شباب کیرانوی کے ساتھ کام کرنے لگ گئے بڑے بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا
موسیقاروں کی دھنیں اورخواجہ پرویز کی شاعری سپر ہٹ ہوتی رہی ۔ان کے لکھے صرف اردو گیت ہی ہٹ نہیں ہوتے تھے بلکہ پنجابی گانے بھی ہٹ ہوتے تھے اگر ایک طرف ان کا ”پیار بھرے دو شرمیلے نین“ اور ” جب بھی کوئی پیار سے بلائےگا“ گنگنائے گئے تو کہیں ”س±ن وے بلوری اکھ والیا“ اور ”او وے سونے دے یا کنگنا“ گائے گئے۔خواجہ پرویز نے سٹیج کا بھی رخ کیا وہاں کے لئے بھی لکھا۔جس وقت فلمی صنعت زوال کی طرف جا رہی تھی اس وقت بھی ان کے لکھے ہوئے گیت لوگ سراہتے تھے فلم چلتی تھی یا نہیں لیکن ان کے لکھے ہوئے گیت ضرور سپر ہٹ ہوتے تھے ۔ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن جیسے دیگر گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے ہزاروں گیت گائے اور شہرت سمیٹی خواجہ پرویز شوگر جیسے مرض مں مبتلا تھے طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال منتقل کیا گیاجہاں وہ بیس جون 2011کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔