پولیس انتظا میہ کی نا اہلی قانون کا نفازسب کے لیے ضروری

0
41

صوبائی دارالحکومت میں گاڑیاں رینٹ پر لے کر گروی دینے والا میگا سکینڈل بے نقاب

سابق جسٹس کے بیٹے سمیت کئی افراد ملوث کروڑوں روپے کی خورد برد کا انکشاف

مختلف تھانوں میں کئی مقدمات درج پانچ مقدمات کے تفتیشی جاوید بٹ نے تاحال کسی نامزد ملزم کو گرفتار نہیں کیا بلکہ دیہاڑی کے چکر میں دائیں بائیں کے افراد کو تنگ کرنے لگا

شہزاد شاہ نامی شخص کے گھر ریڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل

سابق جسٹس کے گھر 25سے ذائد متاثرین کی پنچایت کی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی

کئی ماہ گزر جانے کے باوجود تفتیشی جاوید نے جسٹس (ر)کے بیٹے حنان اصغر کو پکڑنے کے لئے ایک بھی ریڈ نہ کیا اور نہ ہی نامزد ملزمان نے

عبوری ضمانت کروا کر یا ویسے پیش ہو کر کسی بھی شخص کے بارے کوئی بیان نہ دیا تو پھر مقدمہ میں نامعلوم بے گناہ افراد کو پھنسا کر مقدمات

سے جان چھڑانے کا انکشاف

حنان اصغر کی گاڑی گروی رکھوا کر پیسا وصول کرنے کی ویڈیو اور وائس ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آ گئیں

تمام ثبوت ہونے کے باوجود جاوید بٹ کا نامزد ملزمان کو چھوڑ کر نامعلوم بے گناہ افراد کو مقدمہ میں چالان کرنا سمجھ سے بالاتر ہے

تفتیشی افسر جاوید بٹ کے مطابق شہزاد شاہ نامی شخص ہمیں مطلوب ہے جس کی وجہ سے اس کے گھر ریڈ کیا جاوید بٹ کا کہنا تھا کہ نامزد ملزمان

کے پیچھے شہزاد شاہ کا ہاتھ ہے جاوید بٹ نے تسلیم کیا کہ شہزاد شاہ اس کے ایک بار بلانے پر اس کے پاس گیا اور شامل تفتیش بھی ہوا دوبارہ بلانے

پر نہ آیا تو اسے ریڈ کرنا پڑا

اس سارے ڈرامے اور اثرو رسوخ کے چکر میں متاثرین گھن چکر بن کر رہ گئے دوسری جانب

شہر لاہور میں ایک میگا فراڈ سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جس میں بااثر شخصیات کی بگڑی اولادیں عیاشی کے لئے کیسے عام عوام کے گلے کاٹ رہی

ہیں اور پولیس کا کیا کردار رہا ذرائع کے مطابق صرف ایک مقدمہ 8سال کی محنت کے بعد 2021میں درج ہوا اور اگر درج ہو ہی گیا تو پولیس کی

ملزمان کو گرفتار کرنے کی جرات نہ ہو سکی اس مقدمہ میں جسٹس(ر)کے بیٹے حنان اصغر،رانا عباس اور عثمان میو نے رینٹ اے کار سے جعلی

چیک دے کر ماہوار رینٹ پر گاڑی لی اور سود خوروں کے پاس گروی رکھوا دی اسی طرح 23گاڑیاں مختلف رینٹ اے کار سے لے کر مختلف سود

خوروں کے پاس گروی رکھوا کر ان کی مد میں کروڑوں روپیہ وصول کیا جس کے بعد متاثرین نے ان پر درخواستیں دائر کیں جن پر مقامی پولیس کی

ملی بھگت سے داخل دفتر کروایا جاتا رہا کمنٹس میں موجود ایف آئی آر کی کاپی دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2012کے واقعہ کا مقدمہ 2021میں

درج کروانے تک اس گاڑی کے مالک کو کیا تکالیف برداشت کرنا پڑی ہوں گی حنان اصغر اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مکمل ثبوت ہونے کے

باوجود پانچ مقدمات کے تفتیشی افسر جاوید بٹ نامزد ملزمان کو تاحال گرفتار نہ کر سکے اور دائیں بائیں کے افراد کے گھر ریڈ کر کے خانہ پوری کرنا

چاہتے ہیں انوسٹی گیشن پولیس کو معاملہ کو سنجیدہ لینا ہو گا چونکہ قانون سب کے لئے برابر ہے چاہے کوئی جسٹس کا بیٹا ہو یا رینٹ کی کار کا مالک

Leave a reply