پونجی سنبھالیئے…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
ہم میں سے کسی کا بھاری بینک بیلنس موجود ہو…اور ہم اسے بنک کھاتے میں محفوظ تصور کر رہے ہوں…
ایکدم کوئی آفت آ جائے…
بیماری آ گھیرے…
یا کوئی اشد مالی ضرورت پڑ جائے تو ہم اپنے اس اکاونٹ کی طرف متوجہ ہوں کہ وہاں سے کُچھ پیسہ نکلوا کر کام چلایا جائے…
مگر جب ہمیں یہ بجلی نما خبر سنا دی جائے کہ آپ کا اکاؤنٹ خالی ہو چکا ہے…
تو ایک دم سناٹا چھا جائے گا ناں ؟
ہم گھبراہٹ کے عالم میں خود کو ساکت و جامد محسوس کرنے لگیں گے ناں؟
جب سب کچھ لٹ چکا ہو اور آگے کی کوئی سبیل نظر نہ آئے تو ہم کس قدر مایوسی کی گہرائیوں میں اترنے لگتے ہیں…؟
تو ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ہم نمازیں ادا کرتے ہیں…
صدقہ و خیرات کرتے ہیں…
حج و عمرہ کرتے ہیں…
تلاوتِ قرآن کرتے ہیں.
فہمِ حدیث حاصل کرتے ہیں…
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ان نیکیوں کو خود ہی مٹانے پر بھی کمر بستہ رہتے ہیں…!
ہم کسی کی عزت پہ حرف گیری کر کے…
کسی کی برائی کر کے…
کسی کی چغلی کھا کر…
کسی کمزور پر ظلم کر کے…
کسی پر تہمت لگا دینا…
کسی سے ناحق کُچھ لے لینا…
کسی کو گالی دے کر…
کسی کو مارپیٹ کر…
کسی کا مال ہتھیا کر…
کسی کو دُکھ پہنچا کر…
کسی کے کام میں رکاوٹیں پیدا کر کے…
کسی کے خلاف بدگمانیاں پھیلا کر…
تو ایسا ہی شخص وہ ہے جو دنیا میں عبادات کی مشقت بھی برداشت کرے گا مگر روزِ قیامت تہی دست آئے گا…
وہ سخت اور طویل مدت دن جب ایک ایک نیکی کی یاد ستائے گی…
اور پھر کہیں وہ کسی اور کو بانٹ دی جائے…
کسی کے اٹھائے ہوئے بوجھ کی ادائیگی کر دی جائے…
کہیں ریا کے جرم میں اُڑتا ہوا غبار کر دی جائے…!!!
اور انسان بتدریج خالی ہاتھ ہوتا چلا جائے تو کس قدر ندامت اور دُکھ کا مقام ہو گا؟
بہت سی نیکیاں کمائی ہوں گی مگر خود ہی اُن کو ختم کرنے کی فاش غلطی بھی کر بیٹھے ہوں گے تب پیچھے کا یارا رہے گا،نہ آگے کا چارہ…!!!
آج اُن اعمال کی تھکاوٹ سے استفادہ بھی نہ ہو…کیسا مقامِ حسرت ہو گا؟؟
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سےفرمایا:
"اتدرون من المفلس؟
تم جانتے ہو مفلس آدمی کون ہے ؟
قالو:المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع…
وہ کہنے لگے:
جس کے پاس درہم و متاع نہ ہو،وہ مفلس ہے…!!!
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت میں مفلس اور کنگال آدمی وہ ہے قیامت کے دن نماز،روزے اور زکوٰۃ لے کر آئے گا،
اور اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہو گی،
کسی پر تہمت لگائی ہو گی،
کسی کا مال کھایا ہو گا،
کسی کا خون بہایا ہو گا،
کسی کو مارا ہو گا،
اس کی نیکیاں اُن لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی،
اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی،قبل اس سے کہ اس کا قرض ادا ہو،تو ان کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا…”[صحیح مسلم]۔
تو ذرا سوچیئے کہ معاملہ کتنا نازک ہے…
حقوق العباد کی طرف کتنی توجہ درکار ہے؟؟؟
اور نیکیوں پر مغرور ہونا بھلا کیا معنی رکھتا ہے؟
ہمیں اپنے رب کی رحمتوں کا اُمید وار رہنا چاہیئے اور اس سے آسان حساب کا سوال کرتے رہنا چاہیئے…!!!
ذرا سنبھلیئے کہ کہیں پونجی لُٹ نہ جائے…!
ہم اپنے کھاتے میں نیکیاں بھیج کر بھی مفلس نہ بن جائیں؟
ہم نے اپنی پونجی میں سے کُچھ لیا بھی نہ ہو اور وہ مفت میں تقسیم کر دی جائے…؟
اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ
ہمارے خالی اکاؤنٹ کی دلدوز خبر کہیں میدانِ محشر میں ہماری سماعتوں سے نہ آ ٹکرائے…!!!
اور ہم ندامتوں کے اتھاہ سمندر میں بس گرتے ہی چلے جائیں…؟
اللّٰھُمَّ لا تجعلنا منھم واھدنا اِلٰی صراطِِ مستقیم،ولاتخزنا یوم القیمۃ•(آمین ثم آمین)۔
ہمارے رب ہمارا شمار ان لوگوں میں کرنا جو:
"جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں…”
[المعارج]۔
==============================

Shares: