اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے،دوران سماعت باربار سوال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا اور کہا کہ اپنے سوال روک کر رکھیں۔
باغی ٹی وی: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ درخواستوں پر سماعت کررہا ہے دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہنوٹس پر پیش ہوا ہوں، عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا آرٹیکل 191 میں لفظ’لاء‘ کا مطلب ہے وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے، سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، اور دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے فیصلے کا حوالہ دوں گا، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے جس پرجسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے لکھا ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں،چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس پر وکیل فیصل صدیقی ہنسے تو چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیس التوا میں ہیں، میری ساتھی ججز سے درخواست ہے اپنے سوالات روک کر رکھیں، بینچ میں ہرکوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں، چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہےکہ ایک کیس ختم نہیں ہوا، اگر آپ ہر سوال کاجواب دیں گے تو آپ کے دلائل مکمل نہیں ہوسکیں گے، باقی تمام کیس چھوڑ کراس کیس کی سماعت کررہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ رولز میں لاء کی تعریف درج ہے، صرف یہ بتادیں آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے جسٹس منیب کے سوال پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگرآپ نے پہلے ہی ذہن بنالیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیےگا، وکیل کو جیسے مرضی دلائل دیناہوں گے دے گا، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ بینچ کا حصہ ہونے پر میرا حق ہے کہ میں سوال کروں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ظاہر ہے آپ سوال کرسکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں، جسٹس منیب نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی اپنے دلائل مکمل نہیں کریں گے تو ہم ہمیشہ یہی کیس سنتے رہیں گے، اس لیے آپ پہلے اپنے دلائل مکمل کریں اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ میں اس بینچ کا حصہ ہوں اوریہ میرا استحقاق ہےکہ میں سوال پوچھوں، مجھے سوال پوچھنے سے روکا جائے گا تو بینچ میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟
ایم کیو ایم کے وکیل نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی، اور ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایکٹ کیخلاف درخواستیں میرٹ پر خارج کی جائیں-
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر دلائل نہیں دینا چاہتے تو بیٹھ جائیں جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ایک بار پھر وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں، ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے، پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کومتاثرکرنےوالی قانون سازی نہیں کرسکتی، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پرعائد آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپروائزکرنے کا مطلب توسپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لیجسلیٹیواینٹریز پارلیمنٹ کو سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، آرٹیکل191کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کو اختیار تھا، سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟-
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ رجسٹرار آفس کے آرڈر کے خلاف اپیل بھی ہوتی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ ایڈمنسٹریٹو آرڈر اور ایڈمنسٹریٹو اپیل ہوتی ہے جسٹس منصورشاہ نے کہا کہ بھلے ایڈمنسٹریٹواپیل ہو، ہمیں اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے، فیصل صدیقی کے دلائل دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس منصور نے کہا کہ میں آپ کی فزیکل موومنٹ کو انجوائے کر رہا ہوں۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ واحد ورزش ہے جو میں کر سکتا ہوں۔
وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، رول بنانے کو قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی، اس تناظر میں بات کروں گا،جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ضروریات تھیں جس بنیاد پر پارلیمنٹ نے ایکٹ بنایا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کا حق آئینی ترمیم سے ہی دیا جا سکتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ اپیل غیر آئینی ہے تو لا ریفارمز میں اپیل بھی غیر آئینی ہے۔،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ والا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، 2 غلط مل کر ایک درست نہیں بنا دیتے،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں، دیکھنا ہو گا آئین میں اپیل کا حق دینے پر پابندی ہے یا نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں400 مرتبہ لاء کا لفظ استعمال ہوا ہے، آئینی تشریح کیلئے کسی نا کسی پرنسپل پر انحصار کرنا ہوتا ہے، آپ کون سے پرنسپل پر انحصار کر رہے ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ عدالت کو دیکھنا چاہئے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ہو سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپیل تو آئین میں پہلے بھی دی گئی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کو براہ راست اختیار کہاں دیا گیاہے،ججز کی جانب سے پے در پے سوالات اور ریمارکس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک وقت پر ایک شخص بات کرے۔
جسٹس مسرت ہلالی کے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل191 کی لینگویج سبجیکٹ ٹو لاء سے شروع ہوتی ہے، کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی، آرٹیکل 184/3جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔
چیف جسٹس نے ایک بار پھر جسٹس منیب اختر کو سوالات پر ٹوک دیا اور کہا کہ پہلے میرےسوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں-
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر مزید سماعت کل صبح ساڈھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی