اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

تو باعث ہستی ہے میں حاصل ہستی ہوں تو خالق الفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
0
81
poet

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کےلیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

بہزاد لکھنوی

معروف شاعر اور نغمہ نگار بہزاد لکھنوی 01 جنوری 1900 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے سردار احمد خاں نام تھا بہزاد تخلص اختیار کیا۔ گھر کا ماحول علمی اور ادبی تھا ۔ ان کے والد بھی اپنے وقت میں خاصے مقبول شاعر تھے۔ گھر اور لکھنؤ کے ادبی ماحول کے اثر سے بہزاد بھی بہت چھوٹی سی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔

بہزاد ایک لمبے عرصے تک محکمۂ ریل سے وابستہ رہے اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران کئی فلمی کمپنیوں سے وابستہ ہوکر نغمے بھی لکھے تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت کی بہزاد لکھنوی کا انتقال 10 اکتوبر1974 کو کراچی میں ہوا۔ شعری مجموعے : نغمۂ نور، کیف و سرور ، موج طہور، چراغ طور، وجد وحال۔

غزل
۔۔۔۔۔
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنا دے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
میں ڈھونڈھ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانۂ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزادؔ ہر اک گام پہ اک سجدۂ مستی
ہر ذرے کو سنگ در جانانہ بنا دے

غزل
۔۔۔۔۔
تمہارے حسن کی تسخیر عام ہوتی ہے
کہ اک نگاہ میں دنیا تمام ہوتی ہے
جہاں پہ جلوۂ جاناں ہے انجمن آرا
وہاں نگاہ کی منزل تمام ہوتی ہے
وہی خلش وہی سوزش وہی تپش وہی درد
ہمیں سحر بھی بہ انداز شام ہوتی ہے
نگاہ حسن مبارک تجھے در اندازی
کبھی کبھی مری محفل بھی عام ہوتی ہے
زہے نصیب میں قربان اپنی قسمت کے
ترے لیے مری دنیا تمام ہوتی ہے
نماز عشق کا ہے انحصار اشکوں تک
یہ بے نیاز سجود و قیام ہوتی ہے
تری نگاہ کے قرباں تری نگاہ کی ٹیس
یہ ناتمام ہی رہ کر تمام ہوتی ہے
وہاں پہ چل مجھے لے کر مرے سمند خیال
جہاں نگاہ کی مستی حرام ہوتی ہے
کسی کے ذکر سے بہزادؔ مبتلا اب تک
جگر میں اک خلش نا تمام ہوتی ہے

غزل
۔۔۔۔۔
کیا یہ بھی میں بتلا دوں تو کون ہے میں کیا ہوں
تو جان تماشا ہے میں محو تماشا ہوں
تو باعث ہستی ہے میں حاصل ہستی ہوں
تو خالق الفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنۂ دو عالم
جب درد سے غافل تھا اب درد کی دنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں کوئی لیکن
تو اور کسی کا ہے بے درد میں تیرا ہوں
مدت ہوئی کھو بیٹھا سرمایۂ تسکیں میں
اب تو تری فرقت میں دن رات تڑپتا ہوں
ارمان نہیں کوئی گو دل میں مرے لیکن
اللہ ری مجبوری مجبور تمنا ہوں
بہزادؔ حزیں مجھ پر اک کیف سا طاری ہے
اب یہ مرا عالم ہے ہنستا ہوں نہ روتا ہوں

اشعار
۔۔۔۔۔
آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے کہ اٹھتی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

ہم بھی خود کو تباہ کر لیتے
تم ادھر بھی نگاہ کر لیتے

مجھے تو ہوش نہ تھا ان کی بزم میں لیکن
خموشیوں نے میری ان سے کچھ کلام کیا

زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں

میں ڈھونڈھ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے

اے دل کی خلش چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

عشق کا اعجاز سجدوں میں نہاں رکھتا ہوں میں
نقش پا ہوتی ہے پیشانی جہاں رکھتا ہوں میں

Leave a reply