دور حاضر کے مسائل اور علماءکرام کے احسانات
علماءکرام امت مسلمہ کے لئے اللہ رب العزت کا نہایت ہی عظیم انعام ہیں۔
ہر دور میں یہی رجال عظیم تھے جنہوں نے امت مسلمہ کی راہنمائی اور انکو راہ راست پر رکھنے کا مقدس فریضہ انجام دیا اور اب اس دور پر فتن اور پرآشوب میں بھی تمام مخالفتوں، تمام دشنام طرازیوں اور باطل فرقوں کی مسلسل سازشوں کے باوجود بھی اپنے اس مقدس فریضے کی انجام دہی میں صرف رضائے الہی کے خاطر ہمہ تن مشغول ہیں۔
حضورﷺ کے بعد دین کی ترویج اور دین اسلام کے تمام احکامات کو اصل حالت میں برقرار رکھنے اور اس امانت کو ہم تک بالکل صحیح صحیح پہنچانے کا سبب بھی یہی علمائے کرام ہیں۔
تصور تو کیجئے ۔۔۔!
اگر ہمارے علمائے کرام بھی بنی اسرائیل کے اکثر علماءکی طرح دولت کے لالچ میں گرفتار ہوجاتے اور اللہ رب العزت کے صریح احکامات میں اپنی من پسند تحریفات کرتے تو کیا آج ہمارے پاس اتنا کامل اور مکمل دین ہوتا؟ یقینا آپکا جواب “نہیں”ہوگا اور ہونا بھی چاہئیے۔
امت محمدیہ ﷺ پر اس امت کے علماء حق کا احسان عظیم ہے کہ انہوں نے اپنی گردنیں تو کٹادیں، قیدوبند کی صعوبتیں تو برداشت کرلیں مگر دین اسلام کے کسی صریح حکم میں کوئی تبدیلی یا تحریف نہ ہونے دی۔
امام احمد بن حنبل ؒ کی مثال لیجئے “عقیدہ خلق قرآن” جیسے کتنے بڑے اور عظیم فتنے کے سامنے تن تنہا سینہ سپر ہوگئے، اذیت ناک قید کاٹی، سرعام کوڑے لگائے جاتے، کمر سے خون کے فوارے جاری ہوجاتے، مگر حق سے ایک انچ سرکنے پر آمادہ نہ ہوئے آپکی اسی لازوال قربانی کی وجہ سے امت مسلمہ ایک عظیم فتنے سے محفوظ ہوئی۔
زیادہ دور نہ جائیں، وطن عزیز کے علمائے کرام کی ہی مثال لیجئے، تخم برطانیہ کے ناجائز خودکاشت پودے ” قادیانیوں”نے وطن عزیز میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرنی چاہی، بڑی ہی مکاری اور چالاکی سے خود کو مسلمان ثابت کرنا چاہا مگر علمائے کرام نے انکے مذموم اور ناپاک عزائم کو کامیاب نا ہونے دیا، ملک گیر تحریکیں چلائی گئیں، قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو پارلیمنٹ میں ہونے والے مناظرے میں عبرتناک شکست دی اور بالآخر کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد قادیانیوں کو نا صرف غیر مسلم قرار دلوایا بلکہ پاکستان میں انکی تمام مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگاکر انکی اہم عہدوں اور اداروں میں تعیناتی ختم کردی گئی۔
اگر اس وقت علماء کرام یہ عظیم کام سرانجام نہ دیتے تو میں حلفیہ کہتی ہوں کہ میرا پاکستان آج ان ناپاک قادیانیوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتا۔
تو میرے عزیزو! علماء کی قدر کیجیے، ان کو طنزو تشنیع کا نشانہ نہ بنائیے، اپنے دل سے علماء کرام کا بغض ختم کیجئے۔
اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے:
“جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگے گی تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے۔
①قحط سالی ہوگی
②حاکم وقت کی طرف سے مظالم ہوں گے۔
③حکام خیانت کرنے لگیں گے۔
④دشمنوں کے پےدرپے حملے ہوں گے (حاکم) “
غور کیجئے ان میں کونسا ایسا عذاب ہے جو آج امت مسلمہ پر مسلط نہیں ہے؟
لیکن اسکے باوجود ہم اُن افعال پر تائب نہیں ہورہے، جو ان عذابات کا موجب ہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:
“جس نے کسی عالم کو ایذاء دی اس نے اللہ کے نبیﷺ کو ایذاء دی”
اسلئے خدارا!
علماء سے نفرت و عداوت ختم کیجئے، ان سے عقیدت و محبت کا تعلق استوار کیجئے، یہ محبت اور تعلق دنیا میں تو سود مند ہوگا ہی، ان شاءاللہ آخرت میں بھی “ألمرء مع أحب”کے مصداق علماء کرام کی ہم نشینی کے شرف عظیم کے حصول کا باعث بن جائے گا۔
از قلم:
عائشہ طاہر