واشنگٹن:لاس اینجلس، کیلیفورنیا میں مظاہرین کو پولیس افسران کے ساتھ مارپیٹ کرتے دیکھا گیا، امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ‌ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے ایک تاریخی مقدمے کی منسوخی کے بعد امریکہ بھر کے شہروں میں بدامنی ، چھڑبیں اوردنگا فساد شروع ہوگیا ہے

یہ جھڑپیں فیصلے کے کچھ دیربعد شروع ہوئیں اور ابھی بھی بڑے بڑے علاقوں میں پولیس کے ساتھ عوام کا ٹکراوجاری ہے ، مظاہرین کو پولیس پر آتش بازی سمیت اشیاء پھینکتے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھلے عام جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔افسروں نے لاٹھیوں سے جواب دیا، اور کئی گرفتاریاں کرتے نظر آئے، بعد میں ایل اے کے مرکز میں 4 اور مین اسٹریٹ کے آس پاس کے علاقے میں جمع ہونے والوں کو منتشر کرنے کا حکم جاری کیا۔

بعد ازاں دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، اور فینکس، ایریزونا میں پولیس کے زبردست ردعمل بھی دیکھے گئے، جہاں افسران کو ریاستی دارالحکومت کی عمارت سے ایک ہجوم پر آنسو گیس پھینکتے ہوئے فلمایا گیا۔

امریکی سپریم کورٹ نے مشہور زمانہ روئے ویڈ (Roe v. Wade) کیس کے 1973 کے فیصلے کو غیرمتوقع طور پر کالعدم قرار دے دیا، جس میں اسقاط حمل کو خواتین کا آئینی حق تسلیم کرکے قانونی قرار دیا گیا تھا۔

اس فیصلے کو ری پبلکن اور مذہبی قدامت پسند اپنی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو اسقاط حمل کو محدود یا اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔

عدالت نے 4-5 کے فیصلے سے میسیپی قانون برقرار رکھا، جس کے تحت 15 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل پر پابندی عائد ہے۔ ججوں نے کہا کہ روئے بمقابلہ ویڈ کے فیصلے میں 24 تا 28 ہفتوں سے قبل تک اسقاط حمل کی اجازت دی گئی تھی جو کہ غلط فیصلہ تھا کیونکہ امریکی آئین میں اسقاط حمل کے حقوق پر کوئی خاص ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

میسیپی کے قانون پر نچلی عدالتوں نے پابندی لگا دی تھی کہ اسقاط حمل کے حقوق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ میسیپی میں واحد بچ جانے والے اسقاط حمل کے کلینک جیکسن ویمنز ہیلتھ آرگنائزیشن نے ڈیمو کریٹس کے امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت سے اس قانون کو 2018 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

متذکره قانون کے مطابق اسقاط حمل کی اجازت صرف میڈیکل ایمرجنسی یا مہلک معذوری کی صورت میں دی گئی تھی لیکن اس میں ریپ کی وجہ سے ہونے والے حمل کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

روئے بمقابلہ ویڈ (Roe v. Wade) فیصلے میں بتایا گیا کہ امریکی آئین ذاتی رازداری کے تحت خواتین کو اسقاط حمل کا تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے پر کوئی استثنیٰ نہیں دی گئی ہے۔

‘پلینڈ پیرنٹ ہڈ آف ساؤتھ ایسٹرن پنسلوانیا بمقابلہ کیسی’ کہے جانے والے کیس میں سپریم کورٹ نے 1992میں اسقاط حمل حقوق کی توثیق کی تھی اور کہا تھا کہ اسقاط حمل قوانین کا نفاذ ‘غیر ضروری بوجھ’ ڈالنے کے مترادف ہے۔

امریکا میں 1980 میں اسقاط حمل اپنے عروج پر تھا جو ایک ہزار حاملہ خواتین میں 29.3 تھا جبکہ 2017 میں یہ ایک ہزار خواتین میں 13.5 تھا جس کے بعد 2020 تک اسقاط حمل بڑھ کر 14.4 فی ہزار خاتون ہو گیا تھا۔

بین الاقوامی سطح پر اسقاط حمل کے حقوق میں اضافہ ہو رہا ہے، اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سال 7.3 کروڑ اسقاط حمل ہوتے ہیں جو تمام حاملہ خواتین کا 29 فیصد بنتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مغربی ممالک جس اسقاط حمل کو اپنا فطری حق سمجھتے ہیں، اُسے اسلام میں فطرت کے اصولوں کے خلاف اور حرام قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں اسکے ذمہ دار کو دیت اور خونبہا کی ادائگی کا پابند بنایا گیا ہے۔

Shares: