احتجاج کی پاداش میں سزائے موت پانے والا جیل میں چل بسا

مہسا امینی کو تہران کی اخلاقی پولیس نے خواتین کے لیے سخت ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیاتھا

ایران میں احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں سزائے موت پانے والا ایک شخص جمعرات کے روز جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گیا ہے جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس شخص کو گذشتہ سال ستمبر میں بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس کے زیرِحراست موت کے ردِّعمل میں مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ایرانی عدلیہ کی میزان نیوز ویب سائٹ کے مطابق جواد روحی کو جمعرات کو علی الصباح جیل میں دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انھیں شمالی شہر نوشہر کے ایک اسپتال لے جایا گیا جہاں طبّی عملہ نے ان کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن وہ دم توڑ گئے۔

عالمی میڈیا کے مطابق میزان نے بتایا کہ متوفیٰ روحی کی نعش کو موت کی وجوہ کی تحقیقات کے لیے فارنسک میڈیکل ایگزامینر کے پاس بھیج دیا گیا ہے، جس میں زہریلے ٹیسٹ بھی شامل ہیں۔ پوسٹ مارٹم اور نمونے جمع کرنے کے لیے کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔

جبکہ رپورٹ کے مطابق جواد روحی کو جس جیل میں رکھا گیا تھا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جائے گا اور نوٹ اور ادویہ سمیت ان کے ذاتی سامان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔روحی کو جنوری میں ایک ایرانی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ان پر زمین پر فساد پھیلانے کے الزام میں فردِجُرم عاید کی گئی تھی۔ اور نیم سرکاری خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق متوفیٰ نوشہر شہر میں ہونے والے مظاہروں کے ایک ’رہ نما‘ کے طور پر سامنے آیاتھا جہاں اس نے’اہم مجرمانہ اقدامات‘ کیے تھے۔روحی پر متعدد جرائم میں ملوّث ہونے کے الزامات عاید کیے گئے تھے۔ان میں عوامی املاک کو نقصان پہنچانا اور قرآن کو جلانے کے ذریعے ارتداد کا فعل بھی شامل تھا۔

جبکہ مہسا امینی کو تہران کی اخلاقی پولیس نے خواتین کے لیے سخت ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیاتھا اور تین روز بعد ان کی پولیس کے زیرحراست موت واقع ہوگئی تھی۔ان کی موت کے بعد ایران میں کئی ماہ تک مظاہرے جاری رہے تھے جو تیزی سے ایرانی نظام کا تختہ الٹنے کے مطالبے میں تبدیل ہو گئے تھے جبکہ واضح رہے کہ ایرانی حکام مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو غیر ملکی طاقتوں کے بھڑکائے گئے ’فسادات‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان مظاہروں میں حصہ لینے والوں کوحکام کی جانب سے پُرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے خلاف مختلف جرائم کے الزامات میں مقدمات چلائے گئے ہیں یا چلائے جارہے ہیں۔

Comments are closed.