پی ٹی آئی ایک اور باری لے پائے گی؟ تحریر: نوید شیخ

0
97

جہاں یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی مزید ایک اور باری لے گی ۔ تو فی الحال مجھے یہ پانچ سال بھی پورے کرتے دیکھائی نہیں دے رہے ہیں کیونکہ جس تیزی حالات تو ایک طرف اپوزیشن کے آپسی اختلافات ختم ہورہے ہیں ۔ میں خود حیران ہوگیا ہوں کہ یک دم پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک ہی ملاقات میں بغیر کسی شرائط کے اصولی طور پر طے کر لیتے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجنا ہے ۔ اور اکیلے اکیلے نہیں بلکہ کے مل کر یہ کام کرنا ہے ۔ یہ بات زیادہ اہم ہے ۔ پھر اسی دن شہباز شریف نواز شریف سے تمام پلان شیئر بھی کر لیتے ہیں اس کے بعد نواز شریف بھی بغیر کسی حیل وحجت کے
go aheadکہہ دیتے ہیں ۔ تومولانا سے بھی بات ہوجاتی ہے ۔ ان کو بھی onboard کر لیا جاتا ہے ۔ پھر ایمرجنسی پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے کی تیاری بھی ہوجاتی ہے۔ ویسے اتنی تیزی سے چیزیں تو تب بدلتی ہیں جب کسی فلم کا climax
قریب آرہا ہو ۔

۔ آخری بارجومجھے یاد ہے ایسا تب ہوا تھا جب مشرف کو صدر کے عہدے سے ہٹانا تھا یا پھر جب اٹھارویں ترمیم آنی تھی تب یہ تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئی تھیں ۔ میرے خیال سے ایک بار پھر اسٹیج تیار ہوچکا ہے ۔ اب بس فائنل پرفارمنس ہونا باقی ہے ۔ جس کے بعد حکومت ہر حال بھی گھر ہی جائے گی ۔۔ بس وہ کہتے ہیں نا ۔۔۔ کہ puzzle solve کرنے کا ایک آخری ٹکڑا رہ گیا ہے جس دن اس کا پتہ چل گیا کہ وہ کہاں ہے ۔ تمام سوالوں کے جواب کنفرم ہوجائیں گے ۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں جہانگیر ترین کی ۔ اب سب کچھ تو ہوچکا ہے ۔ بس ان کے جہاز کی لینڈنگ دیکھنی ہے کہ وہ کہاں جا کر رکتا ہے ۔ لاہور ، کراچی ، پشاور یا پھر ملتان میں ہی پارک رہے گا ۔ ۔ ویسے پی ٹی آئی اس وقت مزید حکومت کرنے کا اخلاقی سمیت تمام سیاسی جواز بھی کھو بیٹھی ہے ۔ کیونکہ اب عوامی مطالبہ یہ بنتا جا رہا ہے کہ حکومت جائے گی کب ۔۔۔۔ یہ ہی سوال احتساب عدالت کے باہر شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت گھر چلی جائے گی جس پر شہباز شریف نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بہتر پتہ ہے ، لیکن ہماری پوری کوشش ہو گی ۔۔ تومولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے بلاول، زرداری سے ملاقات پر مجھے اعتماد میں لے لیا ہے ۔ ہم جلد عوام کو اس ناجائر حکومت سے چھٹکارا دلوائیں گے۔ ۔ انکے بعد بلاول بھٹو نے تو پوری کہانی ہی بیان کردی ہے کہ پلان ہے کیا ۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ، اب اسمبلی میں بھی ہوگا۔ عمران خان کے گھبرانے اور جانے کا وقت ہو گیا ہے ۔۔ اس حوالے سے حمزہ شہباز نے بھی کنفرم کر دیا ہے کہ حکومت ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر جنگ لڑی جائے گی ۔

یعنی اپوزیشن ان ہاوس تبدیلی کی تیاریوں میں ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اب تو اسمبلی کے اندر سوائے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر بننے کے علاوہ اپوزیشن کو ہمیشہ سبکی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اور اگر یہ عدم اعتماد کی تحریک وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لانی کی تیاری ہے تو اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کے ہوتے ہوئے مجھے یہ کامیاب ہوتی دیکھائی نہیں دیتی ۔ اس کے لیے مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کو پہلے اسد قیصر کو ہٹانا پڑے گا ۔ پھر اگلا وار عمران خان پر کرنا ہو گا ۔ ۔ اب اگر نمبر گیم کو دیکھا جائے تو اپوزیشن کو خود اکٹھے ہونے اور عمران خان کے کسی بھی ایک اتحادی کو توڑنے کی ضرورت ہے ۔ on paperیہ بہت آسان لگتا ہے مگر یہ اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ make sure
کرنا کہ اپوزیشن کی اپنی گنتی پوری ہو ۔ کیونکہ کوئی بیمار بھی ہوسکتا ہے ۔ کوئی ملک سے باہر ہوسکتا ہے ۔ پھر کوئی خوشی غمی ہوسکتی ہے ۔ اس کے بعد حکومت کا جو دعوی ہے کہ اپوزیشن کے پندرہ سے بیس لوگ عمران خان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس چیز کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ اب اگر پہلے اپوزیشن اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لے تو دوسرا اہم مرحلہ کسی اتحادی کو توڑنا یا پھر پی ٹی آئی کے اندر نقب لگانے کا ہے ۔ اس میں اپوزیشن اگر خالی ق لیگ یا پھر ایم کیو ایم کو ہی حکومت سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگی تو سمجھو کام بن گیا ۔ مگریہاں ٹھہریں زرا ۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ نہ ہی ق لیگ اور نہ ہی ایم کیوایم حکومت سے اس وقت تک علیحدہ ہوں گی جب تک اس گھر سے حکم نہ آجائے جو ان کا قبلہ ہے ۔

پھر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے 20 سے زائد ارکانِ اسمبلی اپوزیشن سے رابطے میں ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ اندرونِ خانہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ بیس ارکانِ اسمبلی سے رابطوں کا دعویٰ ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب تازہ تازہ اپوزیشن کو سینیٹ میں شکست ہوئی ہے، جہاں اُس کی اکثریت ہے۔ تو کیا جن ہاتھوں نے سینیٹ میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا وہ دوسری سمت کو چلے گئے ہیں۔ کیا انہوں نے یقین دلایا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے وہ اسے کامیاب کرا دیں گے۔۔ میرے خیال سے اس یقین دہانی کے بغیر اپوزیشن کبھی بھی اسپیکر یا وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائے گی،کیونکہ حکومتی بنچوں کے ووٹ ملنا تو دور اپوزیشن کے اپنے ارکان عین موقع پر غائب ہو جاتے ہیں۔ ۔ یوں بات ایک بار پھر گھوم کر اسٹیبلشمنٹ پر آکر رک جاتی ہے کہ وہ اگر چاہتی ہے حکومت گھر جائے تو صبح حکومت گھر چلی جائے گی اور اگر وہ چاہتی ہے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے یا پھر اگلے پانچ سال بھی پی ٹی آئی ہی عوام پر مسلط رہے تو یہ کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں ہے ۔ ۔ مگر اس بار بہت سے لوگوں کو امید ہوچلی ہے کہ جس طرح اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں بغیر کسی شرط اکٹھی ہو رہی ہیں ۔ یہ اشارہ ہے کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے ۔ ۔ پھر جو جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ تاحیات نااہلی کا تُک ہی نہیں بنتا، چور اور قاتل سزا کاٹنے کے بعد الیکشن لڑسکتے ہیں اور تاحیات نااہل بھی نہیں ہوتے۔ اسکے بعد انھوں نے کہا کہ بحران انتہا پر پہنچ جاتا ہے،تب حکومت حرکت میں آتی ہے۔ ۔ میرےخیال سے ان کی باتوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ ۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے آئیڈیل حالات ہیں ۔ ۔ کیونکہ حکومت کے پاس عوام حمایت ختم ہوچکی ہے ۔ ۔ اپوزیشن اکٹھی ہوچکی ہے ۔ ۔ پھر حکومت کے اپنے لوگوں سمیت اتحادی بھی ناراض ہیں ۔ ۔ پھر حالیہ دِنوں میں کچھ ایسے پے در پے واقعات ہوئے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ اب کچھ ہوگا ضرور۔

مگر یاد رکھیں عمران خان کو ہٹانے کے لئے کوئی غیبی طاقت نہیں آئے گی، جو تبدیلی بھی آنی ہے، وہ آئینی طریقے ہی سے آسکتی ہے۔ ۔ مگر اس حوالے سے حکومت کےجتنے لوگوں سے میری بات ہوئی ہے انکا ماننا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن صرف سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنے کے لئے یہ سب جتن کر رہی ہیں۔ کیونکہ اب حکومت کی مدت اتنی کم رہ گئی ہے کہ اسے گھر بھیج کر شہید بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ معاشی شعبے میں حکومت کی کارکردگی اتنی بری رہی ہے کہ عام انتخابات میں اُس کا جیتنا اپوزیشن کے نزدیک کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو نکال کے مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کا وزیراعظم لانے سے حکومت کی تمام ناکامیاں اُس کے حصے میں آ جائیں گی۔ اور تحریک انصاف ایک نئے عزم اور دعوؤں کے ساتھ انتخابات میں جائے گی اور کوئی شک نہیں عمران خان واقعی اپوزیشن کے لئے خطرناک ثابت ہوں۔ ۔ مگر جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ایسی کوئی بات سمجھانا ممکن نہیں۔ وہ پہلے دن سے حکومت کو غیر آئینی اور مسلط کردہ کہہ کر اُسے نکالنے کے در پے ہیں۔ وہ اس کے لئے ایک لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں، جس کے اختتام پرانہوں نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تھا،وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ دھرنا ختم کرانے کے لئے اُن سے حکومت ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، جسے پورا نہیں کیا گیا۔ وہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں، البتہ یہ چاہتے ہیں اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دیں اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو نکال باہر کیا جائے۔ یہ سب کچھ وہ بہت آسان سمجھتے ہیں،حالانکہ حالات ایسے نہیں کہ اب کسی کو دھرنا دے کر حکومت سے نکالا جا سکے۔ دوسری طرف استعفوں کے آپشن پر اپوزیشن کا متفق ہونا ممکن نہیں ۔ ۔ یوں حکومتی وزیروں کا ماننا ہے کہ اس بار بھی اپوزیشن کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچے گی اور امکان یہی ہے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی حالیہ پیار کی پینگیں سوائے ایک دوسرے کے خلاف لفظی سیز فائر کے کوئی بڑا بریک تھرو ثابت نہیں ہونگی۔۔ مگر سچ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے ۔ حکومت کیا سمجھتی ہے ۔ یا اپوزیشن کی خواہش کیا ہے ۔ اس سب سے زیادہ اہم چیز ہے کہ عوام کیا سوچتی ہے ۔ دیکھا جائے تو اس وقت عوامی رائے یہ ہے کہ حکومت نے جھوٹ بولنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، آئی ایم ایف کی بیڑیاں ، کرپشن ، لاقانونیت ، دہشتگردی ان کے سرکا تاج ہے ۔ اسی لیے آج صورتحال یہ ہے کہ کپتان کا نام سن کر عوام صرف بدعائیں نہیں وہ وہ کہہ رہے ہیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا ۔ ۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اب کپتان کو ہرصورت جانا ہی ہوگا ۔

Leave a reply