آصف زرداری کی بچھائی سیاسی بساط پر پی ٹی آئی اپنے انجام کی جانب گامزن:تحریر:-نوید شیخ

0
54

پاکستانی سیاست کا پارہ گرم ہے، ہر گھنٹے بعد ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ مگر سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس وقت ایک دوسرے کو ملک دشمن، غدار، را ، سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ، گھوڑا ، گدھا ، چور ، ڈاکو ، ہارس ٹریڈنگ کے طعنے، اسلام دشمن ، دہشت گرد اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جا رہا ہے ۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام عوام کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ سچ یہ ہے کہ پورے ملک کو بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ تفصیل سے آگے چل کر اس پر بتاتا ہوں ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ ہاؤس سے کل جو منحرف ایم این ایز سامنے آئے ہیں اسکے بعد اتحادیوں نے بھی اپنے رنگ دیکھانا شروع کر دیے ہیں ۔ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ ق نئی کہانی لے کر سامنے آگئ ہیں۔ دونوں جماعتوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم خود تو نہیں بچ سکتے۔ اب وہ پی ٹی آئی کی حکومت بچانے کی کوشش کریں۔ یعنی مائنس ون فارمولہ ۔۔۔ اس خواہش پر پی ٹی آئی کے اندر تو بہت سے لوگوں کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کیا پتہ کچھ نے شیروانی سلوانے کے آرڈر بھی دے دیے ہوں۔

دوسری جانب ترین گروپ نے حکومت کے لیے اپنے تمام نمبرز بند کر دیے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے جہانگیر ترین سے ٹیلی فون پر بار بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جہانگیر ترین سے بات نہیں ہوسکی۔

پھر پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب کے بعد آج لاہور میں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کے بینرز لگ گئے ہیں ۔ مگر دوسری جانب آپ المیہ دیکھیں ۔ جن لوگوں کو عمران خان یا عثمان بزدار چارسال تک نوازتے رہے ۔ ان کو توفیق نہیں ہوئی کہ کپتان اور وسیم اکرم پلس کے حق میں ایک بینر ہی لگوا دیتے ۔ میں تو یہ حیران ہوں کہ کل جو لسٹ سامنے آئی ہے اس میں پی ٹی آئی کی خصوصی نشست پر منتخب خواتین بھی شامل ہیں ۔ اب کپتان کو ان لوگوں کو ضرور پوچھنا چاہیے جن کے کہنے پر اپنے لوگوں نذر انداز کرکے یہ ٹکٹ دیے گئے تھے ۔

میری چڑیل کے مطابق لوگ صرف سندھ ہاؤس میں نہیں ہیں یہ اور جگہوں پر بھی موجود ہیں ۔ یہ پیسے لینے اور دینے میں کوئی صداقت نہیں ہاں البتہ انہوں نے پیسے کی بجائے بارگین کی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں ن لیگ، پیپلزپارٹی ، ق لیگ اور جے یو آئی ف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ جی ہاں اس لسٹ میں ق لیگ بھی شامل ہے ۔

ویسے اب تو بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے کہ ایم کیو ایم اور باپ کے رہنماؤں سے زرداری صاحب کی ملاقات کا اہتمام چودھریوں نے کیا ہے۔

مگر کپتان کو کچھ نہیں پتہ چل رہا ہے کہ کون اس وقت کیا گیم کر رہا ہے ۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ کپتان کو سیاست سیکھائی جا رہی ہے ۔ خالی ایک ٹپ دے سکتا ہوں کہ کپتان کو چاہئے ان لوگوں پر خاص نظر رکھے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اجلاس لیٹ کروانے کی ضد کی ۔ کیونکہ اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوا ہے ۔ اگر شروع میں ہی اجلاس بلایا لیا جاتا تو حکومت کی پوزیشن بہتر ہوتی ۔ یاد رکھیں اس وقت بہت سے وزرا اندر کچھ اور باہر کچھ کہہ رہے ہیں ۔ یہ رمیش کمار نے تین وفاقی وزراء کا ذکر کیا ہے یہ بلکل ٹھیک بات ہے ۔ کیونکہ وزراء نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے رابطے کیے ہیں ۔ کیا آپ نے غور کیا ہے کہ کپتان کی ہر چال بروقت اپوزیشن کو کیسے معلوم ہوجاتی ہے اور وہ پہلے سے ہی اقدامات اٹھا کر حکومتی ہر چال کا اثر زائل کردیتی ہے ۔ اس حوالے سے کپتان کو اپنی
منجی تھلے ڈانگ پھیرنا پڑے گی ۔۔۔

پھر حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم اور ان کے وزراء اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کو لانے کے جتن تو کر رہے ہیں، مگر وہ ان دس ارکانِ اسمبلی کو نہیں روک سکے۔ جو بقول ان کے لوٹے ہو گئے ہیں۔ اپنی جماعت کو مضبوط رکھنے کی بجائے اِدھر اُدھر پر نظر رکھنے سے معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ اتحادیوں کو منانے کی کوششیں اپنی جگہ مگر وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ خود تحریک انصاف کے اندر بغاوت ہو چکی ہے تو اپنا فیصلہ محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ جو عمران خان صاحب ہر دوسرے جلسے میں تین چوہوں کا ذکر کررہے ہوتے ہیں یہ چوہے باہر نہیں ان کی اپنی صفوں میں موجود ہیں کاش اگر اپنی جماعت میں موجود چوہوں کا قلع قمع کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ ویسے اس ڈوبتے جہاز سے چوہوں نے گودنا شروع کردیا ہے ۔ ایم این ایز تو جا ہی رہے ہیں اعظم خان بھی کپتان کو اکیلا چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔

اسی لیے مشیر اور وزیر حواس باختہ ہوگئے ہیں ۔ ان کی زبانیں وہ الفاظ اگل رہی ہیں کہ عوام کانوں میں روائیاں ڈالنے پر مجبور ہیں ۔ پیمرا تو خاموش ہے ہی ۔ مگر اخلاقیات کا درس دینے والے کپتان نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔

کیونکہ عمران خان کا اپنا مزاج بھی انتقام کے شعلے اگل رہا ہے۔ ڈاکو، چور، لٹیرے جیسے القابات کے بعد اب وہ اپوزیشن رہنماؤں کو مسخرے، گیدڑ اور چوہے جیسے غیر مہذب ناموں سے پکار رہے ہیں۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کپتان اور ان کی ٹیم اس ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار ہے ۔

بہرحال تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے۔ جو کر ہو کر رہنا ہے ۔ حکومت جتنے مرضی حیلے بہانے تراش لے ۔ اب سب کو معلوم ہوگیا ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ میں اکثریت کھو چکے ہیں ۔ کل جس طرح ان کے اپنے ایم این ایز سامنے آئے ہیں اسکے بعد کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ گیا ہے کہ وہ مزید کرسی پر براجمان رہیں ۔ اس وقت پوری کی پوری پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ مجھے تو ڈر ہے اب مزید لوگ پی ٹی آئی کو خیر آباد کہیں گے ۔ تعلق توڑیں گے کیونکہ جیتنے والے کے ساتھ سب ہوتے ہیں ۔ ہارنے والے کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہونا چاہتا ۔

اپوزیشن اب اگلا حملہ پنجاب میں کرے ۔ مونس الہی اہم ملاقاتوں کے لندن پہنچ گئے ہیں عنقریب آپ دیکھیں گے وسیم اکرام پلس کو بھی گھر جانا پڑے گا ۔

دیکھا جائے توغلطیاں عمران خان کی اپنی ہیں کہ اے ٹی ایم، ، لوٹے ، چینی،آٹا مافیا اور آئی ایم ایف ورلڈ بنک کے نامزد افراد کو بطور مشیر اپنے ساتھ قبول کیوں کیا تھا۔ کپتان کو چاہیے کہ تھوڑا حوصلہ کریں چاہے عوام کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف نہ کریں۔ مگر کام نہ کرنے کی وجہ تو بتا دیں۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی نوبت بس اب آنے ہی والی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے سپیکر سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ زیر کو زبر کر دیں گے۔ تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیں گے، مگر ایسا کرتے ہوئے انہیں قواعد و ضوابط کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر حکومت کے اتحادی اس دن اسمبلی میں جاتے ہیں تو ان کے ووٹ کو تو مسترد نہیں کیا جا سکے گا، اس وقت حکومت کی حالت یہ ہے کہ چادر چھوٹی اور پاؤں بڑے ہیں۔ اتحادیوں کو مناتے ہیں تو تحریک انصاف کے ارکان کھسک جاتے ہیں، انہیں پکڑتے ہیں تو اتحادی آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔

اس عمدم اعتماد کا سب سے زیادہ فائدہ چھوٹی جماعتوں کو ہوا ہے ۔ جیسے ایم کیو ایم کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ اے این پی، باپ، جی ڈی اے بلوچ قومی پارٹی پر لگنے والے الزامات اور الزام لگانے والے خود ہی پاک صاف ہونے کے لئے ایک دوسرے کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو عدم اعتماد تحریک کی ساری بساط بھی آصف علی زرداری نے بچھائی ہے۔ ہر درپہ گئے ہیں اور کہیں بھی اپنی انا کو خاطر میں نہیں لائے، حتیٰ کہ ایم کیو ایم سے ملاقاتوں میں بھی ہر شرط ماننے کا تاثر دے کر انہوں نے گیم کا پانسہ ہی پلٹ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر آصف علی زرداری اس طرح میدان میں نہ نکلتے تو اپوزیشن کی اتنی بڑی اکثریت نہ بنتی اور حکومت کو خطرات بھی لاحق نہ ہوتے۔ اب تحریک انصاف کو اپنے بندے غائب ہونے کا کُھرا بھی سندھ ہاؤس سے مل رہا ہے، گویا اشارہ پھر آصف علی زرداری کی طرف ہے۔ یاد رہے کہ آصف علی زرداری بہت پہلے کہہ چکے ہیں یہ حکومت ہماری وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے وزن کی وجہ سے گرے گی۔

پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ اور سندھ میں ایم کیو ایم کے بڑے مطالبات ایسی رکاوٹیں ہیں، جنہیں کپتان عبور نہیں کر پا رہے۔ دوسری طرف اپوزیشن ہے جو اتنی سخی بنی ہوئی ہے کہ انکار اس کی زبان پر آ ہی نہیں رہا۔ یہ سب کچھ آصف علی زرداری کے جوڑ توڑ کی وجہ سے ہے۔

Leave a reply