تحریک انصاف نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا

0
50
سپریم کورٹ کا قوت سماعت اور گویائی سے محروم افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے اہم فیصلہ

پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دو صوبوں کے عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں۔

باغی ٹی وی : سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

آئندہ سماعت پر عثمان بزدار پیش نہ ہوئے تو ضمانت خارج کردی جائے گی،عدالت

سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب حکومت کا جواب ابھی ملا ہے، پی ٹی آئی نے تحریری جواب جمع نہیں کرایا، کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاید تحریک انصاف نے جواب جمع نہیں کرایا وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کوئی بھی جواب پہلے سے فراہم نہیں کیا گیا ،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہےپہلے یہ بتانا ہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے گراؤنڈز لے سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جواب کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے، نظرثانی اختیار کا آرٹیکل 188 اختیارات کو محدود نہیں کرتاچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین پاکستان نظرثانی کی اجازت دیتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے، کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی کا دائرہ اختیار دیوانی، فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق کیلئے رجوع کرنا سول نوعیت کاکیس ہوتا ہے۔

کراچی میں پولیس اہلکار کو شہید کرنیوالا ملزم سوئیڈن سے گرفتار

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد، دوسرا بنیادی حقوق کا ہے، اگر انتخابات کا مقدمہ ہائیکورٹ سے ہو کر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔

تحریک انصاف نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا، اور الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

تحریک انصاف نے اپنے جواب میں مؤقف پیش کیا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں، جب کہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائےجاسکتے۔

تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نظر ثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، بلکہ 90 روز میں انتخابات کے لئے ڈیڈ لائن مقرر کی، انتخابات کے لئے 30 اپریل کی تاریخ صدر مملکت نے دی، جب کہ الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا، سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے جائزہ لینے کا اختیار ہے۔

مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے،عمران خان

تحریک انصاف نے اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا، 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے، آرٹیکل218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تحریک انصاف نے مؤقف پیش کیا کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کےلئے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرچکی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ انتحابات سے کروڑوں عوام کے حقوق جڑے ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کےعوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے-

109 ملین پاؤنڈز کیس میں نیب میں پیشی: عمران خان سے پوچھ گچھ مکمل

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا ایک حصہ عوامی مفاد اور دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔

جسٹس منیب اختر نےکہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق نظرثانی کا دائرہ اختیارنہیں، طریقہ کار محدود ہے-

چسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نظرثانی کیس میں اپنے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیوں کرے، نظرثانی کیس میں آپ کا مؤقف ہےکہ دائرہ محدود نہیں،کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں،سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیارمیں ابہام پیدا کرے-

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اپنے دائرہ کار کو یکجا کر کے استعمال کر سکتی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جا سکتا عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، عدالت کو نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

نیب کو ایک اختیار مل گیا جسے ہر جگہ استعمال کررہا ہے،چیف جسٹس

جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ 184(3) میں نظرثانی کواپیل کی طرح سماعت کریں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ 184(3) میں نظرثانی دراصل اپیل ہی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، لیکن ان نکات پرعدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں، وفاقی، نگراں حکومت کے جوابات کو بھی سراہتے ہیں، اس بار کیس کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اس سے پہلے تو سب بینچ کے نمبرز میں لگے ہوئے تھے، جو باتیں اب کر رہے ہیں پہلے کیوں نہیں کیں، کیا ان باتوں کو پہلے نہ کرنے کی وجہ کچھ اور تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دلیل مان لیں تونظرثانی میں ازسر نو سماعت کرنا ہوگی اور بہت پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی، آئین میں نہیں لکھاکہ نظرثانی اوراپیل کادائرہ کاریکساں ہوگا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل سوا 12 بجے تک ملتوی کردی۔

عمران خان نے ہی منصوبہ کی تھی کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو کیا …

واضح رہے کہگزشتہ روز پنجاب میں انتخابات کرانےکے فیصلےکے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست میں نگران پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا تھاوفاقی حکومت نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پرنظرثانی کی استدعا کی ہے۔

وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہےکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کر دیا، پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونےکا اندیشہ ہے۔

نگران پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئےکہا ہےکہ الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار ریاست کے دیگر اداروں کو ہے، 14 مئی الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہیں دی۔

مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے،عمران خان

Leave a reply