پنجاب بورڈز نتائج میں تاخیر کیوں؟ تحریر محمد ناصر بٹ

کورونا آیا تو سب بہا لے گیا، جہاں ایک طرف معاشی چیلنجز کھڑے ہوئے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں میں حکومت، ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کو بھی آمنے سامنے کھڑے ہونے پر مجبور ہونا پڑا، حکومت کبھی اداروں کو بند کبھی امتحانات کو آن لائن کرکے ایسے تیسے گزارا تو کرتی گئی لیکن جب بغیر پڑھائے امتحانات کا وقت آیا تو بلا لیا گیا بچوں کو سینٹرز میں اور امید کی گئی کہ سب بچے آئیں گے بھی، ایسا ہوا تو ضرور لیکن ایک بڑی تعداد حکومتی پالیسی سے نالاں امتحانی مراکز کا رخ نہ کر سکی، ان تمام ناراض بچوں کے لیے حکومت نے احساس ہونے پر بین الالصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ان کو نہ صرف دوبارہ بیٹھنے کا موقع ملے گا بلکہ سیپلمنٹری کا ٹیگ بھی ان کے رزلٹ کارڈز کی زینیت کو مدھم نہیں کرے گا، پنجاب حکومت سمیت ملک بھر کے 30 تعلیمی بورڈز کو احکامات پہنچا دئیے گئے لیکن وہ کہتے ہیں نہ دیر کردی مہربان آگے آتے، زبانی کلامی احکامات تو ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا نے فی الفور متعلقہ اداروں تک پہنچا دئیے لیکن سرکاری کام میں احکامات بھی سرکاری اور تحریری ہی مانے جاتے ہیں تو سلسلہ چل پڑا ایک ڈیپارٹمنٹ سے دوسرے اور اس کے بعد تیسرے کا، یعنی قانونی پیچیدگیوں کے سمندر سے تیر کر آخر کار بین الالصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس کے فیصلوں کا ڈرافٹ پنجاب حکومت کے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ تک 29 تاریخ کو پہنچ ہی گیا، اب مسئلہ پیش آیا کہ پنجاب کے نو بورڈز تو 30 ستمبر یعنی اگلے ہی دن رزلٹ اعلان کرنے کی تاریخ دے بیٹھے تھے لیکن قانونی مسئلہ یہ بھی نظر آیا کہ سب بچوں کو پاس کرنے، سیپلیمنٹری ٹیگ ہٹانے سمیت وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے دیگر فیصلوں کو پالیسی کا حصہ نہ بنایا گیا تو کل نہ صرف بورڈز بلکہ سٹوڈنٹس کے لیے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو کڑوا گھونٹ بھر ہی لیا گیا اور ایک پریس ریلیز کے ذریعے بچوں کو رزلٹ بوجہ کابینہ اجلاس میں پروموشن پالیسی نہ منظور ہونے کے ملتوی کر دیا گیا، اب ایسا ہونا ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز منڈی میں دکانداروں کی تو جیسی سیل لگ گئی، ہر دوسرا رزلٹ کینسل ہونے کی مختلف وجوہات بتانے دکان سجا کر بیٹھ گیا، کسی نے پروموشن پالیسی خطرے میں قرار دی تو کسی نے سرے سے رزلٹ ہی غائب کر دیا، خیر تازہ اور حقائق پر مبنی خبر کی تلاش میں کامیابی سمیٹنے والوں نے یہ بتایا کہ انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو کا رزلٹ آئندہ ایک ہفتے کے دوران آسکتا ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ نئی پالیسی تو دوبارہ ری ڈیزائن کی جا چکی لیکن چیف سیکریٹری پنجاب کے اسلام آباد میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی منظوری نہ ہوسکی جس کی وجہ سے پالیسی ڈرافٹ وزیراعلی پنجاب کی ٹیبل تک بھی نہ پہنچ سکا اور نہ ہی وزارت قانون کی راہداریوں پر چڑھ سکا، اب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب یہ کہتا ہے کہ ہفتے کے آخری ایام ہونے کی وجہ سے منظوریوں کا سلسلہ سوموار سے ہی شروع ہوگا جس میں بہرحال دو سے تین روز لگ سکتے ہیں تاہم میٹرک کا رزلٹ 16 اکتوبر کو ہی آئے گا

Twitter:
@Mnasirbuttt

Comments are closed.