سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے بعد پنجاب میں سیاسی و آئینی ہلچل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور پنجاب میں ایک مرتبہ پھر نمبر گیم اہمیت اختیار کر گئی ،وزیر اعلی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگی۔

پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے.وزیر اعلی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگی۔ ذرائع کے مطابق نمبر کیم میں حکومت اور اپوزیشن کا پلڑا برابر ہونے کا امکان ہے.تحریک انصاف کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے سے گولڈن فگر 186 کسی کے پاس نہ ہو گا۔25 ارکان کی نااہلی کے بعد پنجاب کا ایوان 346 ارکان پر رہ گیا ہے.

ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ایوان میں عددی اکثریت 173 ہو گئی ہے اور 173 ووٹ لینے والا ہی وزیراعلی پنجاب ہوگا۔موجوسہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کے 165 ارکان،پیپلزپارٹی کے 7 ، آزاد ارکان 4 اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن حکومتی اتحاد میں شامل ہے جس کے بعد حکومتی اتحاد کےاراکان کی تعداد 177 ہے.

پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر کو نکال کر ارکان کی تعداد 157 جبکہ مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں .تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کے نااہل ہونے سے اسپیشل نشستوں پر پی ٹی آئی کے 5 نئے ارکان ایم پی اے بن جائیں گے جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے کل ارکان کی تعداد 172 ہو جائے گی

ذرائع کے مطابق ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری اور چوہدری نثار نے وزیر اعلی کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا۔ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس چئیر کیا اور چوہدری نثار ایوان میں ہی نہیں آئے تھے۔ موجودہ صورتحا ل رہنے پر بھی حکومتی اتحاد کو نئے انتخاب میں 5 ووٹ کی برتری ہوگی ۔تاہم اگر مسلم لیگ ن کے 4 منحرف ارکان حمزہ کو ووٹ نہیں ڈالتے تو صورتحال دلچسپ ہوگی ،حکومت اور اپوزیشن 172 ارکان برابر ہوجائیں گے۔نمبر کیم میں حکومت اور اپوزیشن کا پلڑا برابر ہو جائے گا.ذرائع کے مطابق ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کا کردار اہم ہوگیا۔وزیراعلی کے انتخاب میں سردار دوست محمد مزاری فیصلہ کن اہمت ااختیار کر گئے ۔ ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا.

ذرائع کے مطابق ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے اور اگر ایسا ہوا تو حمزہ شہباز ایک بار پھر وزیراعلی منتخب ہوجائیں گے۔

Shares: