پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے حوالہ سے پنجاب حکومت نے تیاریاں شروع کر دیں

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے لئے سب سے پہلے حلقہ بندیاں کروائی جائیں گئ، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں پنجاب بھر میں حلقہ بندیاں ہوں گی، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے ایک سال بعد الیکشن ہوں گے

واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو الیکشن کروانے کا حکم رواں‌ برس جولائی میں دیا تھا، لاہور ہائیکورٹ میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ،جس میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل نہیں ہٹایا جا سکتا، پنجاب حکومت نے آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی کی ہے.عدالت نے بلدیاتی نمائندوں سے استفسار کیا کہ اب تک بلدیاتی نمائندوں نے عوام کے لئے کیا اقدامات کئے ؟

عدالت نے حکومت کو کہا کہ الیکشن کااعلان کریں،یہ بلدیاتی نمائندے الیکشن میں حصہ لیں گے،سرکاری وکیل نے کہا کہ ابھی بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کااعلان نہیں کرسکتے۔

لوکل گورنمنٹ بل پنجاب اسمبلی سے منظور،مسلم لیگ ن ناکام

پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام، لاہور ہائیکورٹ نے بڑا حکم دے دیا

واضح رہے کہ نیا بلدیاتی نظام پنجاب اسمبلی سے منطور ہو چکا ہے، مسلم لیگ ن نے بل پیش کرنے کے موقع پر ایجنڈےکی کاپیاں پھاڑ دی تھیں اور بھر پور احتجاج کیا تھا، تحریک انصاف اس بل کے پاس ہونے کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے . نئے ترمیمی بل کے تحت ناظمین اب چئیرمین کہلائیں گے، تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں سٹی لوکل گورنمنٹس بنائی جائیں گی۔تحصیل کونسل چیئرمین اور میئر سٹی لوکل گورنمنٹ کے انتخابات جماعتی بنیاد پر جبکہ ویلیج و نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے

مسلم لیگ ق کے رہنما سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ کے بیٹے مونس الہی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پراسمبلی سے منظور کردہ بلدیاتی نظام کوخیبر پختونخواکے نظام کا کاپی پیسٹ قراردے دیا .مونس الہیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا،دونوں صوبوں کی آبادی اوررقبے میں واضح فرق ہے،نئے بلدیاتی نظام میں ماضی کی طرح کئی نقائص ہیں،چارہزاریونین کونسل کی جگہ 24 ہزارولیج اور پنچایت کونسلزبہت زیادہ ہیں ،ایسے نظام سے انتظامی ڈھانچے اور مالی اخراجات میں چھ گنا اضافی ہوگا ،کم ازکم آٹھ ارب روپے سالانہ اور دیگر اخراجات ضائع ہوں گے ،

 

شہباز شریف کے لئے ایک اور مشکل، بلدیاتی اداروں کے آڈٹ کا فیصلہ

 

Shares: